کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 107
میں ذکر کر کے برمز ’’ض‘‘ ضعیف کہا ہے اور اس کے علاوہ اور اہلِ علم نے بھی اس حدیث کی تضعیف کی ہے۔دوسری حدیث کو بخاری و مسلم وغیرہما نے روایت کیا ہے،[1] مگر اس میں لفظ اسحاق کے بعد ذبیح اﷲ کا لفظ نہیں ہے۔اہلِ علم نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں ذبیح اﷲ کا لفظ کسی راوی نے اپنی طرف سے زیادہ کر دیا ہے۔[2] تیسری حدیث کی نسبت تفسیر بیضاوی وغیرہ میں لکھا ہے:’’لم یثبت‘‘[3] یعنی یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔چوتھی کی سند کا حال معلوم نہیں کہ کیسی ہے:صحیح ہے یا ضعیف۔اگر صحیح بھی ہو تو یہ ابن عباس کا قول ہے،جو محتمل ہے کہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہو۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ الغرض ان حدیثوں میں سے کوئی حدیث قابلِ احتجاج و لائقِ اعتماد نہیں ہے اور ان حدیثوں کے علاوہ اور حدیثیں بھی پیش کی جاتی ہیں،مگر وہ بھی ایسی ہی ناقابلِ احتجاج ہیں اور ساتھ اس کے ان احادیث کے معارض ایسی حدیثیں بھی ہیں،جن میں صاف تصریح ہے کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام تھے،مثلاً ایک یہ حدیث جو تفسیر در منشور میں بحوالہ ابن جریر وغیرہ ہے: ’’أخرج ابن جریر والآمدي في المغازي،والخلعي في فوائدہ،والحاکم وابن مردویہ بسند ضعیف،عن عبد اللّٰه بن سعید الصنابحي قال:حضرنا مجلس معاویۃ بن أبي سفیان فتذاکر القوم إسماعیل وإسحاق:أیھما الذبیح؟ فقال:سقطتم علیٰ الخبیر،کنا عند رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فأتاہ أعرابي فقال:یا رسول اللّٰه خلفت الکلأ یابسا،والماء عابسا،ھلک العیال وضاع المال،فعد علي مما أفاء اللّٰه علیک یا ابن الذبیحین! فتبسم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم،ولم ینکر علیہ،فقال القوم:من الذبیحان یا أمیر المؤمنین؟ قال:إن عبد المطلب لما حفر زمزم،نذر للّٰه تعالیٰ إن سھل حفرھا أن ینحر بعض ولدہ،فلما فرغ أسھم بینھم،وکانوا عشرۃ فخرج السھم علیٰ عبد اللّٰه،فأراد ذبحہ فمنعہ أخوالہ من بني مخزوم،وقالوا:أرض ربک،وافد ابنک،ففداہ بمائۃ ناقۃ،فھو الذبیح،وإسماعیل الثاني‘‘[4] [عبداﷲ بن سعید صنابحی کہتے ہیں:ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے،لوگ باتیں کر رہے تھے کہ ذبیح کون ہے،اسماعیل کہ اسحاق؟ انھوں نے کہا:تم باخبر کے پاس بیٹھے ہو،ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! گھاس خشک ہوگئی،پانی ختم ہوگیا،اہل و عیال ہلاک ہونے لگے،مال ضائع ہو گیا۔اے ذبیحین (دو ذبیحوں)کے بیٹے! میری کچھ مدد کر،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۱۷۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۳۷۸) [2] الفتح السماوي للمناوي (۸۴۲) [3] الفتح السماوي بتخریج أحادیث القاضي البیضاوي (۸۴۳) [4] الدر المنثور (۷/ ۱۰۶) نیز امام ذہبی رحمہ اللّٰه فرماتے ہیں:’’إسنادہ واہ‘‘ (المستدرک:۲/ ۶۰۴) نیز دیکھیں:السلسلۃ الضعیفۃ،رقم الحدیث (۳۳۱)