کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 106
لیل،ولا نھاري نھار،والأسیر الذي في یدیک بما ادعي علیہ من السرق أخوہ لأمہ،فکنت إذا ذکرت أسفي علیہ قربتہ مني فیسلي عني بعض ما کنت أجد،وقد بلغني أنک حبستہ بسبب سرقۃ،فخل سبیلہ،فإني لم ألد سارقا،ولیس بسارق،والسلام‘‘[1] [جب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو چوری کے الزام میں روک لیا تو یعقوب علیہ السلام نے انھیں خط لکھا کہ ’’ہم ایک ایسا گھرانہ ہیں،جن پر مصیبت مسلط ہے،میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور انھوں نے صبر کیا تو اﷲ نے ان پر آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور میرے باپ اسحاق علیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جا کر ذبح کیا۔انھوں نے صبر کیا تو اﷲ نے ان کو بچا لیا اور فدیے میں مینڈھا ذبح ہوگیا اور مجھے اﷲ نے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائی تھی،وہ مجھ سے چھین لی،اس کا غم میری بینائی لے گیا،میری ہڈیوں سے گوشت خشک ہوگیا اور نہ رات میری رات ہے اور نہ دن میرا دن ہے،اور وہ قیدی جو آپ کے پاس چوری کے الزام میں گرفتار ہے،وہ اس کا ماں جایا بھائی ہے۔میں اس کو دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتا تھا۔اب وہ بھی مجھ سے چوری کے بہانے چھن گیا۔آپ اسے چھوڑ دیں،نہ وہ چور ہے نہ میں چور جننے والا ہوں ] 1۔مشکات شریف کے ’’باب النذور‘‘ میں ہے: ’’عن محمد بن المنتشر قال:إن رجلا نذر أن ینحر نفسہ إن نجاہ اللّٰه من عدوہ،فسأل ابن عباس،فقال لہ:سل مسروقا،فسألہ فقال:لا تنحر نفسک،فإنک إن کنت مؤمنا،قتلت نفساً مؤمنۃ،وإن کنت کافرا تعجلتَ إلیٰ النار،واشتر کبشا فاذبحہ للمساکین،فإن إسحاق خیر منک،وفدي بکبش،فأخبر ابن عباس فقال:ھذا کنت أردت أن أفتیک۔رواہ رزین‘‘[2] [ایک آدمی دشمن کے پنجے میں گرفتار ہوگیا،اس نے نذر مانی کہ اگر مجھے خدا تعالیٰ نے اس دشمن سے نجات دی تو میں اپنے آپ کو خدا کے لیے ذبح کروں گا۔اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ پوچھا:آپ نے فرمایا:مسروق سے پوچھو،ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا:اپنے آپ کو قتل نہ کر،اگر تو مومن ہے تو ایک مومن کا قتل تیرے ذمے ہوگا اور اگر کافر ہے تو آگ کے لیے جلدی کرتا ہے۔ایک مینڈھا ذبح کر کے مسکینوں کو کھلا دے۔اسحاق تجھ سے بہتر تھے،ان کا فدیہ بھی ایک مینڈھے سے ہوا تھا،اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو مسروق کا جواب بتایا تو آپ کہنے لگے:میں بھی تجھ کو یہی جواب دینا چاہتا تھا] تو جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب حدیثیں ضعیف و ناقابل احتجاج ہیں۔پہلی حدیث کو جلال الدین نے جامع صغیر
[1] تفسیر ابن أبي حاتم (۷/ ۲۱۸۵) الدر المنثور (۴/ ۵۶۷) اسے بیان کرنے والے ابو روق تابعی ہیں اور اس کی سند بھی منقطع ہے۔ [2] مشکاۃ المصابیح (۲/۲۸۴) علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی سند نہیں ملی،کیونکہ رزین کی کتاب مفقود ہے۔