کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 104
کے وجود پر بالاولیٰ اور بدرجہ اول دلالت کرتی ہے،اس کے علاوہ یہ بات تو یقینی ہے کہ یہ ذبح مکہ میں واقع ہوا۔یہی وجہ ہے کہ قربانیوں کی رسم مکے میں چلی آتی ہے،جس طرح اسماعیل اور اس کی ماں کی ان کی یادگار اور اﷲ کا ذکر قائم کرنے کے لیے صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے اور جمرات کو کنکر مارنے کا حکم دیا گیا،نیز مکہ میں حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ ہی تھی،اسحاق اور ان کی والدہ نہیں تھی،بنا بریں ذبح کی جگہ اور وقت بیت اﷲ کے ساتھ متصل ہو گیا جس کی تعمیر میں حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل نے شرکت کی تھی اور مکہ میں قربانی حج کا حصہ قرار پائی جو زمان و مکان کے اعتبار سے ابراہیم اور اسماعیل کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا۔اگر حضرت اسحاق ذبیح ہوتے تو شام میں ہوتے،کیوں کہ وہ مکہ میں کبھی نہ آئے تو قربانیوں کی رسم بھی شام میں ہوتی۔یہ صاف دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحاق۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت اسماعیل کو اﷲ تعالیٰ نے حوصلے والا لڑکا فرمایا ہے اور حضرت اسحاق کو علم والا لڑکا کہا ہے اور اس سے بڑھ کر حوصلہ کیا ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنی جان ذبح کرنے کے لیے پیش کر دے،اگر ذبیح حضرت اسحاق ہوتے تو ان کو حوصلے والا لڑکا کہا جاتا اور تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ حضرت اسحاق کی ولادت سے پہلے ذبح ہونے کا واقع ہوچکا تھا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ حضرت اسحاق کی ولادت حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے بڑھاپے میں ہوئی اور حضرت اسماعیل کی ولادت کے وقت حضرت ابرہیم بھی اتنے بوڑھے نہ تھے اور حضرت ہاجرہ تو جوان تھیں اور یہ جو سورت ذاریات میں بشارت مذکور ہے،وہ حضرت اسحاق کے متعلق ہے۔یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ جتنا پیار پہلے بچے سے ہوتا ہے،دوسری اولاد سے اتنا پیار نہیں ہوتا۔ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے ایک بچے کی دعا مانگی،جب لڑکا مل گیا تو حضرت ابراہیم کے دل میں اس بچے کی محبت بھی آگئی اور آپ اﷲ تعالیٰ کے خلیل تھے اور خُلت کا تقاضا تھا کہ اس دل میں اور کسی کی محبت پیدا نہ ہو،چناں چہ اﷲ تعالیٰ نے اس محبوب (بچے) کو ذبح کرنے کا حکم دے دیا۔چوں کہ ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت اسماعیل کی محبت سے زیادہ تھی،لہٰذا ان کو ذبح کرنے پر تیار ہوگئے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے شراکت کی تمام آمیزشیں دور ہوگئیں تو اب بچے کے ذبح کا کوئی فائدہ نہ تھا،لہٰذا ان کو اﷲ تعالیٰ نے بچا لیا۔مینڈھے سے ان کا فدیہ دیا گیا اور خلیل کا خواب سچا ہوگیا۔خدا تعالیٰ کی مراد پوری ہوگئی۔ تو معلوم ہوا کہ یہ امتحان پہلے بچے کی پیدایش پر ہی ہوا تھا۔دوسری اولاد کے متعلق اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا اور یہ بھی سوچیں کہ جب حضرت ہاجرہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو حضرت سارہ کے دل میں رشک آیا،اﷲ تعالیٰ نے اس نیک بندی کا دل ٹھنڈا کرنے کے لیے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے کو عرب میں چھوڑ آؤ اور خدا تعالیٰ یہ کیسے کر سکتے تھے کہ ہاجرہ کا بیٹا تو زندہ رہے اور سارہ کو بعد میں بیٹا