کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 103
الخلیل،فأمرہ الخلیل بذبح المحبوب،فلما أقدم علیٰ ذبحہ،وکانت محبۃ اللّٰه أعظم عندہ من محبۃ الولد،خلصت الخلۃ حینئذ من شوائب المشارکۃ،فلم یبق في الذبح مصلحۃ،إذ کانت المصلحۃ إنما ھي في العزم وتوطین النفس فیہ،فقد حصل المقصود فنسخ الأمر،وفدیٰ الذبیح،وصدق الخلیل الرؤیا،وحصل مراد الرب۔ ’’ومعلوم أن ھذا الامتحان والاختبار إنما حصل عند أول مولود،ولم یکن لیحصل في المولود الآخر دون الأول،بل لم یحصل عند المولود الآخر من مزاحمۃ الخلۃ ما یقتضي الأمر بذبحہ،وھذا في غایۃ الظھور،وأیضاً فإن سارۃ امرأۃ الخلیل غارت من ھاجرۃ وابنھا أشد الغیرۃ،فإنھا کانت جاریۃ،فلما ولدت إسماعیل،وأحبہ أبوہ اشتدت غیرۃ سارۃ،فأمر اللّٰه سبحانہ أن یبعد عنھا ھاجرۃ وابنھا،ویسکنھا في أرض مکۃ لتبرد عن سارۃ حرارۃ الغیرۃ،وھذا من رحمتہ ورأفتہ فکیف یأمر سبحانہ بعد ھذا أن یذبح ابنھا ویدع ابن الجاریۃ بحالہ،ھذا مع رحمۃ اللّٰه لھا،وإبعاد الضرر عنھا،وجبرہ لھا،فکیف یأمر بعد ھذا بذبح ابنھا دون ابن الجاریۃ،بل حکمتہ البالغۃ اقتضت أن یأمر بذبح ولد السریۃ فحینئذ ترق قلب سارۃ علیٰ ولدھا،وتتبدل قسوۃ الغیرۃ رحمۃ،ویظھر لھا برکۃ ھذہ الجاریۃ وولدھا،وأن اللّٰه لا یضیع بیتا،ھذہ وابنھا منھم،ولیري عبادہ جبرہ بعد الکسر،ولطفہ بعد الشدۃ،وأن عاقبۃ صبر ھاجرۃ وابنھا علیٰ البعد والوحدۃ والغربۃ والتسلیم إلیٰ ذبح الولد آلت إلیٰ ما آلت إلیہ من جعل آثارھما ومواطئی أقدامہما مناسک لعبادہ المؤمنین ومتعبدات لھم إلیٰ یوم القیامۃ،وھذا سنتہ تعالیٰ فیمن یرید رفعہ من خلقہ أن یمن علیہ بعد استضعافہ وذلہ وانکسارہ۔قال تعالیٰ:{وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ} وذلک فضل اللّٰه یؤتیہ من یشاء،واللّٰه ذو الفضل العظیم‘‘[1] انتھیٰ کلام ابن القیم۔ [اگر اعتراض کیا جائے کہ دوسری بشارت صرف نبوت کے وقوع کی تھی کہ جب باپ نے صبر کیا اور بیٹے نے اﷲ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کر لیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کو اس کا بدلہ نبوت کی شکل میں دیا۔اس کا جواب یہ بشارت دو چیزوں کی تھی ایک اس کے وجود اور ذات کی اور دوسرے اس کے نبی ہونے کی،یہی وجہ ہے کہ لفظ ’’نبیا‘‘ اس آیت میں حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے،لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ بشارت جو اصل میں زائد چیز شمار ہوتا ہے! بلکہ یوں ہی سمجھ لیں کہ بشارت نبوت کی ہے،اگر نبوت کی بشارت ہے تو اس یعنی وجود پر واقع ہو رہی ہے،اس کو اس سے نکال کر ’’حال‘‘ کے تابع کر دیا جائے جو اصل نہیں بلکہ کلام
[1] زاد المعاد (۱/ ۷۰)