کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 101
’’اِذْبَحْ ابنَکَ إِسْحَاقَ‘‘ یعنی ذبح کر اپنے بیٹے اسحاق کو۔کہا ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہ اس عبارت میں لفظ اسحاق کی زیادتی اہلِ کتاب کی تحریفات سے ہے،کیونکہ یہ زیادتی ہے ان کی کتاب کے اس قول کے مخالف ہے کہ ذبح کر اپنے پہلے اور اکلوتے بیٹے کو،مگر یہود کو اس پر حسد ہوا کہ ذبح ہونے کا شرف بنی اسماعیل میں رہے اور انھوں نے چاہا کہ اس شرف کو کھینچ کر اپنے میں لائیں اور اپنے لیے ثابت کریں اور عرب میں یہ شرف نہ رہے،مگر اﷲ تعالیٰ کو ہر گز یہ منظور نہیں ہے کہ اس کا فضل اس شخص کے لیے ثابت ہو جو اس فضل کا اہل نہیں ہے۔ ’’وکیف یسوغ أن یقال:إن الذبیح إسحاق،واللّٰه تعالیٰ قد بشر أم إسحاق بہ وبابنہ یعقوب،فقال تعالیٰ عن الملائکۃ إنھم قالوا لإبراھیم لما أتوہ بالبشریٰ:{لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ . وَ امْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ} فمحال أن یبشرھا بأنہ یکون لہ ولد،ثم یأمر بذبحہ،ولا ریب أن یعقوب داخل في البشارۃ فتناول البشارۃ لإسحاق ویعقوب في اللفظ الواحد،وھذا ظاھر الکلام وسیاقہ‘‘[1] یعنی یہ قول کہ ذبیح اسحاق علیہ السلام تھے،کیونکر جائز ہو سکتا ہے،حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام کی ماں کو اسحاق علیہ السلام اور ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی،چنانچہ فرمایا:{فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ} یعنی ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت دی،اور اسحاق علیہ السلام کے بعد یعقوب کی۔تو یہ محال ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسحاق علیہ السلام کی ماں کو یہ خوشخبری دیں کہ اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا،پھر وہ اس کو ذبح کرنے کا حکم دے گا۔اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ بشارت میں یعقوب علیہ السلام ضرور داخل ہیں،ایک ہی لفظ میں اسحاق اور یعقوب کی بشارت علیہم السلام پر مستعمل ہے۔ پھر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ سوال و جواب کی صورت میں ایک اشکال کا جواب دے کر فرماتے ہیں: ’’ویدل علیہ أیضاً أن سبحانہ لما ذکر قصۃ إبراھیم وابنہ الذبیح في سورۃ الصافات قال:{فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ . وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰا۔ِٓبْرٰھِیْمُ . قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ . اِِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ . وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ . وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ . سَلاَمٌ عَلٰٓی اِِبْرٰھِیْمَ. کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ . اِِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ} ثم قال {وَبَشَّرْنٰہُ بِاِِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ} فھذہ بشارۃ من اللّٰه لہ شکراً علیٰ صبرہ علیٰ ما أمر بہ،وھذا ظاھر جداً في أن المبشر بہ غیر الأول،بل ھو کالنص فیہ‘‘[2] یعنی اس بات پر کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام تھے،یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ابراہیم اور ان کے بیٹے ذبیح کا قصہ سورت صافات میں ذکر کر کے پھر فرمایا ہے:{وَبَشَّرْنٰہُ بِاِِسْحَاقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ} یعنی ہم
[1] مصدر سابق۔ [2] مصدر سابق۔