کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 92
نکلے ہوئے واپس آئے تو کہنے لگے کہ غنیمت ہمیں ملنی چاہیے کیونکہ ہم دشمن کے پیچھے نکلے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نگران اور پہرہ دار جوتھے،وہ کہنے لگے کہ ہم زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے رہے کہ دشمن انہیں کوئی ہماری غفلت میں نقصان نہ پہنچادے اور جو لشکر کی نگرانی کرتے رہے وہ کہنے لگے کہ ہم نے ہی یہ سب اکھٹا کیاہے اس لیے ہم زیادہ حق دار ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی۔
﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ﴾ (الانفال: ١)
آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں ،کہہ دیجیے انفال اللہ تعالیٰ کے لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تمام غنائم تقسیم کردیں ۔
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ ﴾ (الانفال: ٤١)[1]
جان لو کہ تم جوبھی غنیمت حاصل کرو تو اللہ تعالیٰ کے لیے اس میں سے پانچواں حصہ ہے۔
اسماعیل نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نضیر کو مہاجر ین میں ،تین انصاریوں ،ایک سہل بن حنیف،ایک ابودجانہ اور ایک حارث بن الصمہ کیونکہ مہاجر ین جب مدینہ آئے تو انصار نے پھلوں میں ان کو بھی شریک کرلیاتھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :
ان شئتم قسمت اموال بنی النضیر بینکم وبینھم واقمتم علی مواساتکم فی ثمارکم وان شئتم اعطیتھا المھاجرین دونکم وقطعتم عنھم ماکنتم تعطونھم من ثمارکم
اگر تم چاہو تومیں بنو نضیر کےا موال تمہارے اور ان کے درمیان تقسیم کردوں اور تم کسی طرح اپنے پھلوں میں اپنی ہمدردی اور مواسات پر قائم رہو اور اگر تم چاہو تومیں وہ مہاجرین
[1] احمد فی المسند ( 5/323 ) ومجمع الزوائد (6/92) الترمذی (1561) مختصر فی السیر وقال حدیث عبادۃ حسن.