کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 89
صلح کے جواز میں مالک کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ نے جو صفوان بن امیہ کو اس وقت دیاتھا،جب آپ نے اپنی چادر دے کر وہب بن عمر کواس کی طرف دو ماہ کے لیےاس کوامان دیتے ہوئے بھیجا تھا۔تواس نے کہا میں اس وقت تک نہیں اترتاجب تک آپ اس کی وضاحت نہ کردیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بَلْ لَكَ تَسِيرُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ" بلکہ تم کوچار ماہ چلنےپھرنے کی اجازت ہے۔[1] اوزاعی نے ذکر کیا ہے کہ عبدالملک بن مروان روم کے سرکشوں کوروزانہ ایک ہزار دینار ادا کرتاتھا،یہ بات ولید بن مسلم نے اوزاعی سے روایت کی ہے۔اور صفین کے دنوں میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کرتے تھے اور عبدالملک نے اس طرح سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دنوں میں کیاتھا۔ غنیمت کے حصہ جات،غائب کاحصہ اور عورت کوکچھ دینے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بخاری وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھوڑے کے لیے دوحصے اور پیدل کے لیے ایک حصہ ہے۔[2] یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور علماء نے اس کے مطابق عمل پر اجماع کیا،مگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فارس کے لیے دوحصے ہیں ایک حصہ اس کا اور ایک اس کے گھوڑے کا ان کی دلیل سیدنا مجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن دو سواروں کو حصے دیے،سوار کو دوحصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا[3]۔نیز
[1] مالک فی الموطا (1547) فی النکاح باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجته‬ قبله ثم اسلم وھو مرسل وھو مشھور وشھرته اقوی من اسنادہ۔البیھقی فی السنن (7/186/187) وھومرسل ایضا۔ [2] البخاری (2863) و (3228) ومسلم (1762) وبوداؤد(2733 عن ابن عمر رضی اللّٰه عنه. [3] احمد فی المسند 3/420 و (15470) وابوداؤد )2736) و )3015( والحاکم (131/2) قال فی الفتح فی ا سنادہ ضعف.