کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 83
میں اپنی تلواریں رکھ دیں ۔ ابن ہشام کہتے ہیں یہ اس لیے تھا کہ صلح حدیبیہ جومسلمانوں اور اہل مکہ میں ہوئی تھی اس میں یہ شرط بھی تھی کہ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد وعہد میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ داخل ہوسکتا ہے اور جو اہل مکہ کا حلیف بن گئے،اس کے بعد بنوبکر نے بنوخزاعہ پر چڑھائی کی اور قریش بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی کیونکہ معاہدہ کی روسے مسلمانوں کے حلیف سے اہل مکہ کا جنگ کرنا درست نہیں تھا،اس جنگ میں بنوبکر اور قریش نے خزاعہ کے بہت آدمی ماردیے توعمروبن سالم خزاعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آیا اور آپ سے مدد مانگی۔یہ بھی فتح مکہ کے اسباب میں سےتھا۔ ابن سلام اپنی تفسیر میں کہتے ہیں بنوخزاعہ کے اپنے قاتلین کوقتل کرنے کے متعلق ( جوپچاس آدمی تھے) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ﴾ [1] یعنی تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے۔ ابوسفیان نے کہا اے اللہ کے رسول آج قریش کے بڑے لوگوں کا قتل مباح کردیا گیاہے اس لیے آج کے بعد قریش نہیں ہوں گے،توآپ نے فرمایا (مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ) جوابوسفیان کے گھر چلاجائے اس کو امن ہوگا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لاتغزیٰ قریش ابداولایقتل قریش صبرا ابدا( یعنی علی کفر) قریش سے کبھی بھی جنگ نہیں لڑی جائے گی اور نہ ہی قریش کوکبھی باند ھ کر ماراجائے گا۔[2] یعنی کفر پر
[1] ابن حجر فی الفتح 12/206 فی البدایة والنھایة (4/305) من حدیث ابن اسحٰق ولم یذکرله سند۔ [2] احمد فی المسند (2/412) والترمذی (1611) فی السیر والحمیدی 582 والطبرانی فی الکبیر 3333 والسنادہ صحیح 2 النسائی فی السنن (3/121).