کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 74
یعنی تم سعد بن معاذ کے فیصلے پر ہی آجاؤ۔ مصنف ابو داؤد میں ہے کہ بنو نضیر،بنوقریظہ سے زیادہ معزز تھے اور دونوں ہی جناب ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔[1] کتاب المفصل میں ہے کہ بنو نضیر کی جلاوطنی کے سبب یہ بنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی ایک جماعت لے کر ان کے پاس گئے اور ان سے کلابیوں کی دیت کے بارے میں مدد کرنے کی بات کی جنہیں عمر بن امیہ ضمری نے قتل کر دیا تھا،تو وہ کہنے لگے ٹھیک ہے ہم تمہارے ساتھ تعاون کریں گے،پھر آپس میں الگ ہوکر انہوں نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کا مشورہ کیا۔عمر بن جحاش نضیری نے کہا میں گھر کے اوپر چڑھ کر اوپر سے ایک بہت بڑا پتھر پھینک دوں گا،ایک دوسرے نے کہا میں ان پر چکی پھینک دوں گا۔انہیں سلام بن مشكم نے کہا اس طرح نہ کرو،اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ارادے کے متعلق بتا دےگا۔مسلمانوں سے جو ہمارا عہد ہے تم اس کو توڑ رہے ہو۔ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے ارادہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع آگئی۔ دیگررواۃ نے کہا کہ آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آگئے انہوں نے آپ کو ان کی سازش بتا دی،تو آپ جلدی سے وہاں سے اٹھے،اور مدینہ آگئے،آپ کے ساتھی بھی آپ سے جاملے اور کہنے لگے ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ آپ اٹھ آئے ہیں تو آپ نے فرمایا : "ھمت یھود بالغدرفاخبرنی اللّٰه عزوجل بذالک " یہود نے دھوکا دینے کا ارادہ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی خبر دے دی۔ پھر آپ نے یہود کی طرف یہ پیغام بھیج دیا۔ "ان اخرجوا من بلدی لاتساکنونی وقد ھممتم بغدری وقد اجلتکم عشرا فمن رئی بعد ذلک ضربت عنقه" میرے شہر سے نکل جاؤ،تم اس میں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے،میں تمہیں دس
[1] ابوداؤد(3591) عن ابن عباس وھو حدیث حسن صحیح .