کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 73
اہل ذمہ جب جنگ کریں اور امام وحاکم انصاف والا ہوتواس طرح ان کی بیویاں ،اولاد بوڑھے مرد اور معذور افراد حلال ہو جائیں گے۔یہ اوزاعی ابن الماجشون،ا صبغ ابن حبیب اور ابن المواز نے کہا ہے اور ابن القاسم نے بوڑھے مردوں اور معذور افراد کے متعلق ان کی مخالفت کی ہے اسی طرح جو اپنے آپ کو مخلوق خیال کرتے ہیں ان کو بھی مباح نہ خیال کیا جائے اور نہ ہی ان کو غلام بنایا جائے۔
ابوعبید نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے خون اس لیے حلال نہیں سمجھے کہ انہوں نے احزاب کے دن حملہ آور احزاب کی مدد کی تھی اور وہ چونکہ معاہد تھے تو اس طرح حملہ آوروں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نکث عہد اور وعدہ خلافی قرار دیا۔
ابوعبید کہتے ہیں سفیان بن عینیہ نے کہا ہم نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قوم نے بھی وعدہ کر کے توڑ دیا ہو اور آپ نے ان کے قتل کو حلال سمجھا مگر سوائے اہل مکہ کے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر احسان کیا حالانکہ انہوں نے وعدہ اس طرح توڑا تھا کہ بنو بکرحلفاء قریش اور بنو خزاعہ کی مدد کی جو معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی،اس لیے آپ نے ان سے جنگ کرنے کو حلال سمجھا۔
المفصل کہتے ہیں کہ ان کا محاصرہ اکیس راتیں کیا،پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صلح کا پیغام دیا تو آپ نے انکار کردیا مگر اس شرط پر کہ وہ مدینہ کو آپ کے حکم کے مطابق چھوڑ دیں چنانچہ وہ اس پر راضی ہوگئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ تین گھروں والے ایک اونٹ پر جتنا سامان لے جاسکیں لے جائیں اور جو باقی بچے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا،چنانچہ وہ شام کو چلے گئے اور یہی ان کا حشر تھا۔
ابو عبید نے کتاب الاموال میں ذکر کیا ہے کہ یہود کو کہا گیا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو مان لو،تو وہ کہنے لگے ہم سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ مانیں گے،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ "[1]
[1] احمد فی المسند 6/141،142،مجمع الزوائد 6/128۔فیه وقال فی الفتح فیه محمد بن علقمه وھو حسن الحدیث وبقیة رجاله ثقات قال فی الفتح وسندہ حسن 11/43۔