کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 72
فارغ ہوئے تو ان کی وہ رگ ( جو جنگ احزاب میں کٹ گئی تھی) پھر پھٹ گی اور اسی وجہ سے وہ وفات پا گئے۔[1]
ابن سحنون کی کتاب میں ہے کہ :بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ دشمن سے اللہ کے حکم پر اترنے کا مطالبہ قبول کیا جائے کیونکہ تمہیں یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کا حکم کیا ہے اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرو گے بلکہ ان کو اپنے فیصلے پر اتارو۔
سحنون کہتے ہیں اگر حاکم اپنی بے علمی میں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اتار لائے یعنی جب وہ اس کا مطالبہ کریں توچونکہ شبہ ہے،اس لیے ان کو امن کی جگہ پہنچا دیا جائے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں ۔
محمد کہتے ہیں کہ فیصلہ کی طرف مڑنے سے پہلے ان پر اسلام پیش کیا جائے،اگر وہ انکار کریں تو پھر ان پر جزیہ پیش کیا جائے۔
نوادر میں سے ہے کہ سحنون نے کہا اگر وہ اللہ تعالیٰ اور کسی دوسرے کے حکم پر آجائیں تو ان کے قتل،اولاد کے قید کرنے اور مال لینے کا فیصلہ ہوا،تو یہ فیصلہ نافذ ہوگا،کیونکہ یہ اس طرح ہے گویا وہ صرف اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اترے ہیں ۔
ابن شہاب نے مختصر المدونہ میں کہا ہے کہ بنو نضیر کا واقعہ 3ھ محرم کا ہے ان کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ 4ھ میں پیش آیا آپ ان کی طرف 9 ربیع الاول جمعہ کی شام کو گئے،ان کا محاصرہ کیا،پھر وہ تیئس دن تک محاصرہ میں رہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پچیس دن کا فرماتی ہیں ،بخاری میں بدرسے چھ ماہ بعد یہ وقعہ پیش آیا اور یہ بات عروہ نے کہی۔[2]
بنی قریظہ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ
[1] الترمذی (1582) عن جابر رضی اللّٰه عنہ وقال حسن صحیح۔
[2] البخاری تعلیقا فی ترجمه باب 14 فی المغازی قال الحافظ وصله عبدالرزاق نے المصنف۔