کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 65
تفسیر ابن سلام میں ہے حسن کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی رہا کیے تو جوچاہتا وہ مکہ واپس چلا جاتا۔
ابن سیرین کہتے ہیں مکہ کے آزاد کردہ طلقاء اور اہل طائف کے آزاد کردہ عتقاء کہلاتے تھے۔
ابن ہشام کی سیر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے،اہل مکہ کے لیے فتح مکہ کے دن ایک لمبی حدیث میں جو انہوں نے ذکر کی فرمایا تھا:
"اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ طُلَقَآء" [1]
چلے جاؤ تم آزاد ہو۔
سفیان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا
"الطُّلَقَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ،وَالْعُتَقَاءُ مِنْ ثَقِيفٍ " [2]
قریش کے لوگ طلقاء تھے اور ثقیف کے لوگ عتقاء۔
سفیان اور شعبہ کی کتاب الاعراب سے ہے۔نحاس کی معانی القرآن میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بدر کا دن ہوا تو قیدی لائےگئے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"ماترون فی ھؤلاء الاساری "
تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کی قوم کے لوگ ہیں اور آپ کے اصل ہیں اس لیے ان کوختم نہ کریں شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر لے۔
[1] ابن ھشام فی السیرة (2/412) والبیھقی فی السنن (9/118) وزاد المعاد (3/408) حدیث حسن۔
[2] احمد فی المسند (4/363) والطیالسی (671) والطبرانی فی الکبیر (2311) والحاکم (4/81،82) وصححه ووافقه الذھبی۔