کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 63
فالنضراقرب من اسرت قرابة واحقھم ا ن کان عتق یعتق ظلت سیوف بنی ابیه تنوشه للّٰه ارحام ھناک تشقق صبرایقادالی المنیة متعبا رسف المقید وھو عان موثق ’’اے سوار’’اثیل ‘‘ میں اس کے وجود کی جگہ ہے،اور پانچویں دن کی صبح کو وہاں پہنچنا ہے اور تو اس کی توفیق والا ہے۔وہاں پر فوت شدہ کو اتنا بڑا تحفہ سلام پہنچا دے،کہ جس کو اٹھانے سے ہمیشہ عمدہ سواریاں بھی نیچے جھک جاتی ہیں ۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے عمدہ اور بہترین معدن اور اصل والی ذات،اپنی قوم میں سے عمدہ فضیلت والے اور بہترین نسل والے ہیں ۔اگر آپ اس پر احسان کرتے تواس سے آپ کا کوئی نقصان اور تکلیف نہیں تھی،ا ور بسااوقات ایک نوجوان احسان کرتا ہے حالانکہ وہ بہت غیظ و غضب سے بھرا ہوتا ہے۔یا اگر آپ اس کافدیہ لے لیتے تو وہ ضرور خرچ کر دیتا ہے بہت قیمتی اور مہنگی چیز جو خرچ کرے۔تو نضر بن حارث آپ کے قید کردہ قیدیوں میں قرابت میں بھی بہت قریب تھے،اگر کسی کو آزاد کیا جاتا تو اس کے بھی وہ زیادہ حق دار تھے۔اس کے بھائیوں کی تلواریں ا سے زخمی کرنے لگیں اللہ تعالیٰ کی بنائی رشتہ داریاں پھٹ رہی ہیں ۔اس کو موت تک باندھ کر تھکا کھینچ لے جایا گیا۔باندھے ہوئے اونٹ کے چلنے کی طرح جو قیدی میں جکڑا ہوا ہو۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کے یہ شعر پہنچی تو آپ نے فرمایا 
[1] ابن کثیرفی البدایة والنھایة 3/305 و 306 فی مقتل النضربن الحارث وعقبه بن ابی معیط.