کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 28
اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ فَيُدْفَعُ بِرُمَّتِهِیعنی پھر وہ سارا کا سارا تمہارے سپرد کردیاجائے گا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قسموں کی ابتدا حقوق کےخلاف مدعیوں سے کی جائے گی۔
اس حدیث سے بھی یہ بھی ثابت ہوتاہے قسموں کوردکئے بغیر صرف انکار کردینے پر فیصلہ نہ کیاجائے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب اہل ذمہ حقوق نہ ادا کریں تو ان سے جنگ کرنا درست ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص حاکم سے دور ہوتواس کو بلاناضروری نہیں ،بلکہ وہ جہاں بھی ہواسی جگہ اس کو خط لکھاجاسکتاہے۔
اس میں یہ بھی ہے کہ بغیر گواہوں کے قاضی خط لکھ سکتا ہے۔
اس میں غائب کےخلاف فیصلہ دینے کا جواز بھی ہے مگر اہل عراق یہ حکم نہیں مانتے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قسامت میں صرف ایک شخص قسمیں نہیں اٹھاسکتا۔
اس میں اہل ذمہ کےخلاف اسلام کے مطابق فیصلہ کرنادرست ہے،جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہود کے قتل کرنے پر تسلی اور یقین نہ آیا تو آپ نے مقروضوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ صدقہ کے اونٹوں سے ان کی دیت دے دی۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی آدمی کوزکوٰۃ نصاب زائد بھی دی جاسکتی ہے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اتفاق کیاہے کہ قسامت کا حکم پہلے خون کے مدعیوں کودیاجائےگا مگر امام شافعی کے نزدیک اگر میت کہہ بھی دے کہ میرا خون فلاں کے نزدیک ہے تواس کو قسم نہ دی جائے۔وہ کہتے ہیں کہ جب مدعیوں اور مدعی علیہم کے مابین عداوت ہو جس طرح یہود اور مسلمانوں میں تھی توپھر قسامت ضروری ہوگی ورنہ قسامت ضروری نہیں ۔
ابن لبابہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان خون بہانے کو باطل کردیتا ہے۔
"لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لذَهَبَ دِمَاءُ قَوْمٍ وَأَمْوَالُهُمْ"[1]
[1] البخاري 4552- مسلم 1711- ابو داؤد 3619.