کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 279
کردے،لوگوں نے کہا ہم خوشی سے واپس کرتے ہیں ،آپنے فرمایا ہم نہیں جانتے کس نے اجازت دے دی اور کس نے نہیں دی تم واپس چلے جاؤ اور تمہاری بات تمہارے معتبرین ہمیں پہنچادیں ،وہ چلے گئے پھران کےذمہ دار لوگوں نے ان سےکلام کی پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ ان لوگوں کوخوشی سے اجازت دے دی ہے،یہ بات ہمیں ھوازن کے قیدیوں کےمتعلق پہنچی۔[1] یہاں سے یہ مسئلہ سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی چیز کسی غائب کوبخشی جاسکتی ہے،یہ بات بخاری نے ذکرفرمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر نواہی میں علما ء کا اختلاف ہے،ا صحاب الظاہر اور کچھ اہل الحڈیث کہتے ہیں آپ کے اوامر فرض ہیں اور آپ کے نواہی حرام ہیں اور انہوں نے آپ کے فرامین کوقرآن کے ہم پلہ ٹھہرایا ہے،کچھ اورلوگ آپ کے اوامر کےمتعلق کہتے ہیں کہ آپ کے اوامر جوعلماء تک پہنچے توجوفرائض پر محمول کیے وہ فرائض ہیں اورجو سنت ا ور استحباب پر محمول کیے تو وہ اسی طرح جس طرح انہوں نے کہا اور آپ کے وناہی ان کے نزدیک حرام ہیں ،یہ مذہب امام مالک کا ہے۔ اس مسلک کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے،جوآپ نے فرمایا : "إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ،فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ"[2] کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہواتووہ اپنے دونوں ہاتھ وضو کے برتن میں ڈبونے سے پہلے تین دفعہ دھولے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔
[1] البخاری 2539 و 2540 وابوداود 2693. [2] رواہ احمد 241/2 ومسلم 278 والترمذی 24 وابن ماجة (393) عن ابی ھریرۃ.