کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 278
کے آزاد کردہ لوگ ہیں ۔[1]
بخاری میں ہے کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے عروہ کویہ خبردی کہ جب ہوازن کا وفد آپ کے پاس آیا توآپ کھڑے ہوگئے،انہوں نے سوال کیا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس لیے ہمارے قیدی اور مال واپس کردیجیے،توآپ نے فرمایا۔
"ان معنی من ترون واحب الحدیث الی اصدقه فاختاروااحدی الطائفتین اما المال واماالسبی وقد کنت استأنیت بھم "
میرے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو تمہیں معلوم ہیں اور میرے نزدیک سب سے پیاری بات وہ سب سےزیادہ سچے ہوں توتم دوچیزوں میں سے ایک پسند کرلو یامال لے لو یاقیدی اور بے شک میں نے انہیں کافی مہلت دی اور تاخیر کی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی پر دس دن اوپر تک ان کے معاملہ میں تاخیر کی،جب انہیں معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دومیں سے صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے اور دوسری کبھی بھی واپس نہیں کریں گےتووفد نے کہا کہ ہمیں ہمارے قیدی واپس کردو،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اتنی تعریف وثنا کی جتنی کہ اسے سزاوارتھی،پھر آپ نے فرمایا :
"اما بعد فان اخوانکم جاؤناتابعین وانی رأیت ان اردالیھم سبیھم فمن احب منکم ان یطیب بذلک فلیفعل ومن احب ان یکون علی حظه حتی ٰ نعطیه ایاہ من اول مایفیئ اللّٰه علینا فلیفعل فقال الناس طبنا انالاندری من اذن منکم ممن یأذن فارجعوا حتی یرفع الینا فاؤکم امرکم"
حمد وصلوۃ کے بعد تمہارے بھائی توبہ کرتے ہوئے حاضر ہوگئے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ انہیں ان کے قیدی واپس کردوں ،اب جوشخص خوشی سے یہ بات چاہے تووہ واپس
[1] طبری (3/82) وابن ھشام 2/302و303 ومغازی الوالقدی 922 وابن سعد 2/120.