کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 277
داخل ہوئےا ور ا س کو طائف کی دیوار تک دھکیل کر لے آئے تاکہ اس دیوار کو توڑسکیں اس دوران ثقیف نے لوہے کی گرم کی ہوئی سلاخیں ان پر پھینکیں تو وہ اس گاڑی کے نیچے سے نکل کر بھاگنے لگے،ثقیف نے ان پر تیر برسائے جن سے کئی آدمی شہید ہوگئے،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوثقیف کے انگور کاٹنے کا حکم دے دیا تولوگ انہیں کاٹنے لگے۔ پھر ابوسفیان اور مغیرہ بن شعبہ طائف کی طرف آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ثقیف تم امن دو کہ تم سے کوئی بات کریں ،انہوں نے ان دونوں کو امن دے دیا۔توانہوں نے قریش اور بنی کنانہ کی عورتوں میں سے کچھ عورتوں کو بلایا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ عورتیں قید کرلی جائیں گی وہ عورتیں یہ تھیں ، (1)آمنہ بنت ابی سفیان جوعروہ بن مسعود کے پاس تھی اس کا ایک بیٹا داؤد بن عروہ بن مسعود تھا۔(2) فراسیہ بنت سوید بن عمرو بن ثعلبہ،ا س کا بیٹا عبدالرحمٰن بن قارب تھا۔(3) فقیمہ امیمہ بنت الناسی امیہ بن قلع تھی مگر انہوں نے ان کی طرف جانے سے انکار کردیا،ا بن الاسود بن مسعود نے کہا اے ابوسفیان اور مغیرہ کیامیں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جس کے لیے تم آئے ہو،وہ یہ ہے کہ بنی الاسود کامال ہمیں معلوم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اور طائف کے درمیان وادی عتیق میں ٹھہرے ہیں اور طائف میں کوئی مال اس سے زیادہ لمبی رسی والا نہیں ،جس کا حاصل کرنا بہت مشکل اور سخت مشقت بھرا ہوا ہے اور آبادی سے بھی دور ہے،اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ مال جاگیردے دیا توکبھی بھی ا س سے آباد نہ ہوگا،اس لیے تم ان سے بات کروکہ تووہ خود اپنے لیے رکھ لے،یا ہماری شتہ داری کا خیال لکھ کر ہمیں چھوڑدیں اور ہمارے اور ان کے درمیان جوقرابت ہے وہ سب کو معلوم ہے،تو انہوں نے خیال کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوچھوڑدیا ہے،آپ طائف کوگھیرے ہوئے تھے کہ وہاں قیام کے دوران کچھ غلام آئے اور وہ مسلمان ہوگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا۔ا ن کے مسلمان ہونے کے بعد طائف کے کچھ لوگوں نے ان غلاموں کےمتعلق آپ سے بات کی توآپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ