کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 267
زجاج کی معانی القرآن میں انصار کے ایک آدمی سے روایت ہے جس کوابوطعمہ کہتے تھے اس نے ایک درع چھپا کر آٹے کی ایک بوری میں ڈال دی اور اس میں شگاف تھے توآٹا چوری کی جگہ سے لے کر اس کے گھر تک نیچے گرتا گیا توگمان ہوا کہ اس نے درع چھپائی اس معاملہ پر بحث ہونے لگی تو وہ ا س درع کوایک یہودی کے گھر جاکر رکھ آیا،پھر اپنی قوم کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ مجھ پر درع کی جھوٹی تہمت لگائی گئی ہے اور جب اس کے نشان کا پیچھا کیا تومعلوم ہوا کہ وہ ایک یہودی کے پاس ہے اور وہ یہودی نے چرائی ہےاس انصاری کی قوم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئےا ور کہا کہ ابوطعمہ لوگوں کے نزدیک معذور قرار دیں ،انہوں نے آپ کویہ بتایا کہ درع کی چوری یہودی نے کی ہے،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمالیا کہ اس کومعذور قرار دیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل فرمادی اور انصاری کا پوراواقعہ آپ کو بتادیا اورفرمایا یہ خائن ہےا ور آپ ان خائنوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں اور حکم دیاکہ آپ نے جوارادہ کیاتھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کیاکریں ۔ ﴿وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا﴾( النساء: 107) یعنی ابوطعمہ کی طرف سے جھگڑا نہ کریں اسی طرح اس کی قوم کے لوگ جو اس کےمعاون تھےحالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ چور ہے ان کی بھی حمایت نہ کریں ۔ روایت کیاجاتاہے کہ ابوطعمہ مکہ کی طرف بھاگ گیا اور اسلام سے مرتد ہوگیاتھا اور مکہ میں ایک دیوار میں نقب لگائی تاکہ وہاں چوری کرے تودیوار اس پر گرگئی اور وہ مرگیا [1]
[1] ذکرہ الزجاج فی معانی القراٰن قوله تعالیٰ ولا تجادلون عن الذین یختانون انفسھم الایة وذکرہ الترمذی بنحوہ مطولا (3036) وقال ھذا حدیث غریب لانعلم احدا اسنادہ غیر محمد بن سلمة الحرانی وروی مرسلا۔