کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 253
اہل چیز اہل علم کے نزدیک عصبات کیطرف لوٹتی ہے جس کے صڑف مرد ہی وارث ہوتے ہیں ۔مثلا پھوپھیاں ،بھتیجے،چچازاد وغیرہ ا ن میں سے جو میت کا قریبی رشتہ دار ہوگا اس کو باقی ماندہ مل جائے گی۔ اگر کوئی میت ایک بیٹی،ایک سگی بہن اور بھائی چھوڑ کر مرجائے توبیٹے کے لیے نصف ہوگا اور باقی نصف بھائیوں میں مرد کےلیے دوعورتوں کےبرابر تقسیم ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک بیٹی ایک بھائی اور علاتی بہن ہوتو مال وراثت اسی طرح تقسیم ہوگا،یہاں یہ نہیں کہاجائے گا کہ مذکر اپنی بہن سے افضل ہے۔ بخاری ومسلم کے علاوہ دیگر کتب میں سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگر کوئی میت ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ جائے توبیٹی کونصف اور نصب عصبہ کوملے گا اور بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نصف بیٹی اور نصف بہن کو دیتے ہیں ،توانہوں نے جواب دیا کہ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ معمر کہتے ہیں کہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہ ہوسکی تومیں ابن طاؤس کے پاس گیا،انہوں نے مجھے اپنے باپ سے خبردی کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سےسنا وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا : ﴿إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ﴾(ا لنساء 176) اگر کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی بہنیں ہوں تواسے اس کےترکہ سےنصف ملے گا۔ ابن طاؤس کہتے ہیں کہ میرے والد محترم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نقل کیا ہے اور طاؤس اس آدمی کو پسند نہ کرتےتھےا ور اس میں شک کرتے تھے تواس لیے اس کے باره میں وہ