کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 240
طحاوی کہتے ہیں ا مام مالک جویہ کہتے ہیں کہ گمی ہوئی بکری جواگر کسی ڈراؤنی جگہ سے پکڑ کر کھائاجائے وت ا س کا ضامن نہ ہوگا۔ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ امام موصوف کی دلیل یہی حدیث ہے "ھِی لَكَ،أَوْ لِأَخِيكَ،أَوْ لِلذِّئْبِ" یعنی یہ بکری تیری ہے ہاتیرے بھائی کی یا بھیڑئیے کی۔مگر اس حدیث سے دلیل مکمل نہیں ہوئی اور یہاں لام رملیک کانہیں ہوسکتا کیونکہ بھیڑیا مالک بن کر تونہیں کھاتا،بلکہ وہ دوسرے کی ملکیت کھاتا ہے۔ بخاری ومسلم میں سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا توانہوں نے کہا کہ مجھے ایک تھیلی ملی جس میں سودینارتھے،تو میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا،آپ نے فرمایااس کو ایک سال تک شناخت کراؤ،میں اس کو ایک سال تک شناخت کرواتا رہا مگر کوئی بھی اسے جاننے والا نہ مل سکا،پھر میں وہ لے کر آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا اس کا برتن تعداد اور سربند سنبھال کررکھنا اگر اس کا مالک آگیا تودے دینا ورنہ ان سے فائدہ حاصل کرسکتے ہو چنانچہ میں نے ان سے فائدہ اٹھایا،پھر وہ مجھے مکہ میں مل گیا،راوی کہتے ہیں معلوم نہیں کہ تین سال بعد کہا یا ایک سال بعد۔[1] بخاری ومسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مکہ فتح کیا توآپ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے اللہ کی تعریف اور اس کی ثناء بینا کی پھر فرمایا : "ان اللّٰه حبس عن مکة الفیل۔ھکذا فی البخاری فی روایة الاصیلی وفی روایة القابسی القتل۔وسلط علیھا رسوله والمؤمنین وانھا لم تحل لاحد قبلی وانما احل لی ساعة من نھار وانھا لن تحل لاحد بعدی ولاینفرصیدھا ولا یعضد
[1] البخاری 2426و 2437 ومسلم (1355) وابوداود 1710 عن سوید بن غفلة رضی اللّٰه عنه.