کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 221
میں ہے " نَحَلْتَهُ مِثْلَ هذَا" کیا تو نے اپنے تمام بیٹوں کواس طرح عطیہ دیاہے تومیرے والد نے کہا کہ نہیں ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فَارْتَجِعْهُ"[1]تو اسے بھی واپس لے لو۔ کتاب مسلم میں ہے : " اتَّقُوا اللهَ،وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ" [2] کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔سیدہ ام نعمان عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہا تھا کہ کیا تونے اپنے ہبہ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنایا ہے۔تواس نے اس کو ایک سال ملتوی کردیا پھر وہ ہبہ اپنی بیوی کوبخش دیا،تواس نے کہا جب تک تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنائے تومیں اسے لینا پسند نہیں کرتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ" [3] کہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا۔ اپنے چھوٹے بیٹے کے مال کے متعلق یہ ایک بہت بڑا اصول ہے،اگر کوئی آدمی اپنے بڑے بیٹے یا کسی اجنبی پر صدقہ کرنا چاہے یا اس کوکوئی چیز ہبہ کرنا چاہے تو ہبہ کی گئی چیز جس کے لیے ہبہ کی گئی ہے،اس چیز پر اس کا قبض کرنا ضروری ہے اس مسئلہ میں بنیاد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے جو انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا تھا "لوکنت خزتیه کان لک وانما ھو الیوم ما ل وارث "[4] اگر تونے اس مال کوسمیٹ لیا ہوتاتویہ تیرا ہوگیا ہوتا مگر اب تویہ وارثوں کا مال ہے۔ جب سورۃ الھاکم التکاثر نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي،فَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ؟ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ؟ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ"[5]
[1] البخاری 2576) ومالک (2/751) و (152) ومسلم (1623 و 9) والنسائی 6 /258 عن النعمان بن بشیر رضی اللّٰه عنه. [2] مسلم 1623و 13 من حدیث النعمان بن بشیر رضی اللّٰه عنه. [3] بخاری (265 ومسلم 1623 و 14 عن النعمان بن بشیر رضی اللّٰه عنه. [4] عبدالرزا ق فی المصنف (16507) والبیھقی (6/170) واسنادہ صحیح. [5] مسلم 2958۔و الترمذی 2342۔ابن حیان 7011 من حدیث عبداللّٰه بن الشخیر رضی اللّٰه عنه.