کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 212
سے جوبھی پھل یا کھیتی وغیرہ زمین کی آمدن ہو اس میں نصف ہے،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل امام شافعی پر بھی حجت ہے،کیونکہ امام نے کھجوروں اور انگوروں میں تو یہ جائز کردیا مگر کھیتی میں منع کردیا،حالانکہ اس میں نص موجود ہے اور انگوروں میں جائزقراردیاحالانکہ اس میں نص بھی نہیں ،توجمہور علماء اس میں آپ کےخلاف ہیں ،مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی آمدن سے اپنی بیویوں کوہر سال سووسق دے دیتے تھے جن میں اسی وسق کھجوریں اور بیس وسق جوتھے۔[1]
امام مالک نے کہا خیبر کی سفید جگہ تھوڑی تھی اور سیاہ کئی گنا زیادہ تھی،امام مالک الواضحہ میں کیا کہ وہ اب تک بھی تھوڑی ہے۔
امام مالک نے المدونہ وغیرہ میں کہا ہے کہ میرے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ عامل سفید جگہ کوالغاء اور باطل کردے اور یہ درست ہے۔
اگرکوئی کہنے والا کہے کہ امام مالک نےسفید جگہ کے لغو اور باطل کرنا زیادہ بہتر کیوں کہاہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے اہل خیبر سے زمین کی آمدن پھل اور کھیتی سے نصف حصہ لیاہے؟ توا س کا جواب یہ ہے کہ امام مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کوملحوظ رکھا کہ آپ نے مخابرہ سے منع فرمایا اور مخابرہ زمین کرایہ پر لینے کو کہتے ہیں ،توامام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس بات سے ڈرگئے کہ شاید یہ ممانعت معاملہ خیبر کے بعد ہوئی ہو آپ کا حکم نیا نیا لیاجاتھا۔ا س طرح سفید جگہ کے الغا سے اشکال ختم ہوجاتاہے اگر سفید جگہ خیبر کی طرح تقسیم کرلی جائے توجائز ہے یہ بات محمد بن دحون نے اصیلی سے کہا کہ مجھے ابوعمر اور ابن القطان رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ تمام نے یہ بات بتائی ہے۔
بخاری مسلم میں ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا سیدنا عبداللہ بن ابی حدردرضی اللہ عنہ کے ذمہ کچھ قرض تھا جس کاانہوں نے مسجد میں مطالبہ کیاتومسجد میں ان کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اپنےگھر میں سن لیں اور آپ باہر نکل آئے۔اپنے حجرہ کا پردہ اوپر کیااور آواز
[1] مسلم (2و 1551 ) من حدیث ابن عمر رضی اللّٰه عنہما.