کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 196
ایک اور رروایت میں ہے کہ جس نے جھگڑا کیا وہ یہودی تھا،اس نے اشعث سے جھگڑاکیاتھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَلَكَ بَيِّنَةٌ" کیاتیرے پاس کوئی دلیل ہے ؟
میں نے کہا میرے پاس کوئی دلیل نہیں ،آپ نے فرمایا تویہ قسم اٹھائے گا؟ میں نے کہایہ تو قسم ضرور اٹھالے گا۔
مسلم میں یہ زیادہ ہے " لَيْسَ لَكَ إِلَّا ذَلِكَ" تیرے لیے یہی کچھ ہے۔تب یہ آیت نازل ہوئی
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ الایة
اشعث نے بیان کیاکہ حضر موت کا ایک آدمی یمن میں ایک زمین کےمتعلق جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے،حضرمی نے کہایہ میری زمین ہے اور اس کے باپ نے یہ چھین لی تھی،کندی نے کہایہ میری زمین ہے اور مجھے یہ میرے باپ سے وراثت میں ملی ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے فرمایا کیاتیرے پاس کوئی دلیل ہے،اس نے کہا کوئی دلیل نہیں ،لیکن یہ شخص اللہ کی قسم اٹھالے کہ کیایہ نہیں جانتا کہ یہ میری زمین ہے اور اس کے باپ نے مجھ سے چھینی تھی ؟ توکندی حلف کےلیے تیار ہوگیا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"لایقتطع رجل مالابیمین الا لقی اللّٰه عزوجل وھوعلیه غضبان"
یعنی کوئی آدمی بھی قسم کے ذریعہ کسی کا مال چھین لے تووہ اللہ تعالیٰ کواس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔
جب کندی نے یہ حدیث سنی تواس نے وہ زمین چھوڑدی۔[1]
مصنف عبدالرزاق اور المدونہ میں ہے دوآدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک زمین کا جھگڑا لے کر آئے اور انہوں نے اپنے اپنے کافی دلائل دیے توآپ نے وہ زمین ان میں تقسیم
[1] ابوداود(3244) عن الاشعث بن قیس وھوحدیث صحیح.