کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 176
سفیان ثوری،معن بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ قسم بن ابی بکر نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خشک کھجوروں کوترکھجوروں کے عوض بیچنے کے متعلق پوچھاگیا توآپ نے سوال کیا " أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ" کیاخشک ہونے کے بعد تر کھجوریں کم ہوجاتی ہیں ؟ توصحابہ رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا جی ہاں کم ہوجاتی ہیں تو آپ نے اس سے منع فرمادیا۔[1] ابوعمر واشبیلی وغیرہ کہتے ہیں اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتاہےکہ صنعتیں ان کے اہل لوگوں کی طرف ہی لوٹائی جائیں ،کیونکہ جب واضح ہوگیا کہ تر ( تازہ ) کھجوریں جب خشک ہوجائیں کم ہوجاتی ہیں تویہ بات اہل معرفت کے سپردکردی۔ تجارتی قافلوں کوراستہ میں جاکرملنے،جانوروں کے تھنوں میں دودھ روک کر بیچنے،عیب دار چیز واپس کرنے اورآمدن کے ضامن ہونےکےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مصنف ابن سکن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لاَ يَبِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ إِلَّا الْغَنَائِمَ وَالْمَوَارِيثَ "[2] غنیمتوں اور وراثتوں کے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کی بیع ( سودے) پر بیع ( سودا) نہ کرے۔ اس پرامام بخاری نےباب باندھا کہ ’’قافلوں کے آگے راستہ میں جاکر ملنے سے بیع مردود ہوجاتی ہےا ور ایسا کرنے والاگنہگار اور نافرمان ہوتاہے بشرطیکہ اس کو اس بات کا علم ہو اور ایسا کرنا بیع میں دھوکا ہے اور دھوکا جائز نہیں ہے۔
[1] مالک فی المؤطا (624/2 ) والترمذی 1235) والنسائی 7/229) وابن ماجه (2364) وقال الترمذی حدیث حسن وصححه ابن حیان وابن خزیمه والحاکم 2/39،38 وله شاھد مرسل جید عندالبیھقی فی السنن 5/295 عن عبداللّٰه بن ابی سلمة رضی اللّٰه عنه. [2] البخاری 2139 عن ابن عمر سوی الحملة الاخرۃ.