کتاب: شرعی احکام کی خلاف ورزی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے - صفحہ 144
آپ پر کوئی گناہ نہیں ۔ سیدنا علی،ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ضحاک کہتے ہیں کہ ا س آیت نے بعد والی آیت کو منسوخ کردیا یعنی اس آیت کو ﴿لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ (الاحزاب :52) تمہارے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور یہ بھی جائز نہیں کہ ان سے بدل کر کوئی اورلاؤ۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ پہلے آنے والی آیت بعد والی آیت کومنسوخ کردے۔ اور زیادہ ٹھیک ہے اسی نسخ نے سال کو چار ماہ اور دس دن کے ساتھ منسوخ کیاگیاہوجوسورہ بقرہ کی تلاوت اس سے قبل ایک ہی سورۃ میں موجود ہے۔ مؤطا اور المدونہ میں ابن شہاب سے مروی ہے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان لڑکی سے شادی کی اور ان کے پاس محمد بن مسلمہ کی لڑکی بھی تھی،وہ الگ رہنے لگی توانہوں نے نوجوان کوترجیح دینا شروع کردی تواس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع دی آپ نے فرمایا: "یارافع اعدل بینھما والاففارقھا" اے رافع! یاان دونوں میں انصاف کرویااس کوجداکردو۔ توسیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے آخر میں اس سے کہا اگر تو اسی موجودہ ترجیح پر میرے ساتھ رہ سکتی ہے تومیں تمہیں اپنے پاس رکھ لوں گا ورنہ میں تمہیں فارغ کردیتاہوں ،تواس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾ لنساء : 128) اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی مخالفت یااعراض کاڈر محسوس کرے تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے،