کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 97
اس کی نیند ختم ہو جائے بے شک جب کوئی اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھ رہا ہو وہ نہیں جانتا کہ بخشش طلب کر رہا ہے یا وہ اپنے آپ کو گالیاں دے رہا ہے۔ (صحیح البخاری:۲۱۲) اس حدیث پر امام بخاری نے باب باندھا ہے: ’’باب الوضوء من النوم ومن لم یرمن النعسۃ والنعستین أوالخفۃوضوء اً۔‘‘ نیند سے وضو کرنے کا بیان اور جس شخص نے خیال کیا ہے کہ ایک یا دو بار اونگھنے یا نیند کی وجہ سر جھکنے سے وضو لازم نہیں آتا۔ امام نسائی اس حدیث کو نواقض وضو کے بیان میں لائے ہیں اور انھوں نے اس پر باب باندھا ہے: ’’باب النعاس۔‘‘ اونگھ کا بیان۔ (سنن النسائي: ۱/۲۲) علامہ سندھی اس کے تحت لکھتے ہیں کہ: ’’مصنف (امام نسائی)نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔‘‘ (حاشیۃ السندھی علی النسائی:۱/۱۰۰) ۳۔ سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز تہجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ رہا تھا: ’’فجعلت إذا اغفیت یأخذ بشحمۃ أذنیہ۔‘‘ جب میں اونگھتا تو آپ میرے کان کی لو پکڑ لیتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۶۳/۱۷۹۲) ۴۔ سیدنا انس سے روایت ہے کہ:’’عہد رسالت میں صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) نماز عشاء کا (اس قدر) انتظار کرتے کہ(غلبہ نیند کے باعث)ان کے سر جھکنے لگتے ،پھر وہ نماز پڑھتے اور (نیا)وضو نہیں کرتے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود: ۲۰۰ قال ابن حجر: ’’إسنادہ صحیح۔‘‘ (فتح الباری:۱/۴۱۵) اس کی اصل (صحیح مسلم: ۳۶) میں ہے۔) اس حدیث میں الفاظ ہیں: ’’حتی تخفق رؤوسھم‘‘ خفق کے معنی ہیں: ’’ہلنا حرکت میں آنا۔‘‘ (القاموس الوحید:ص۴۶۰) اس حدیث کو محدثین نے اونگھ پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباری:۱/۴۱۵)