کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 96
امام نووی فرماتے ہیں کہ: ’’اونگھ عقل پر غلبہ نہیں پاتی بلکہ اونگھ کے دوران حواس میں صرف معمولی سا فتور آجاتا ہے۔ لہٰذا وہ ساقط نہیں ہوتے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم:۱/۱۶۳ درسی) جو ہم نے کہا ہے کہ اونگھ ناقض وضو نہیں ہے اس کی دلائل یہ ہیں ۔ ۱۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إذا نعس أحدکم یوم الجمعۃ في مجلسہ فلیتحول من مجلسہ ذلک۔‘‘ ’’جب تم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اونگھ آجائے تو اسے چاہیے کہ اپنی اس جگہ سے پھر جائے۔‘‘ (یعنی وہاں سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ بیٹھ جائے) (سنن أبي داؤد:۱۱۹، مسند أحمد:۲/۲۲ اس کو امام ترمذی (۵۲۶) نے حسن صحیح اور ابن خزیمہ (۳/۱۶۰ح: ۱۸۱۹) نے صحیح کہا ہے۔) امام ابن خزیمہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے: ’’باب استحباب تحول الناعس یوم الجمعۃعن موضعہ إلی غیرہ، والدلیل علی أن النعاس لیس باستحقاق نوم ولا موجب وضوء ا۔‘‘ اونگھنے والے کا جمعہ کے دن (خطبہ سنتے ہوئے)اپنی جگہ سے دوسری جگہ کی طرف پھرنا مستحب ہے اور اس کی بھی دلیل ہے کہ اونگھ نیند کی مستحق نہیں ہے اور نہ ہی(اونگھ)وضو کو واجب کرنے والی ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ:۳/۱۵۹) ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا نعس أحدکم وھو یصلي فلیرقد حتی حتی یذھب عنہ النوم فإن أحدکم إذا صلی وھو ناعس لعلہ یستغفر فیسب نفسہ۔ ’’ جب کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز پڑھ رہا ہواس کو سو جانا چاہیے یہاں تک کہ