کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 90
کچھ لوگ سو رہے ہوں اور کچھ لوگ جاگتے ہوں تو السلام علیکم آہستہ کہنا چاہیے: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ: ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور اس طرح سلام کرتے کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور بیدار کو سنا دیتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۰۵۵) اس حدیث کے تحت حافظ نووی لکھتے ہیں کہ: ’’ا س میں یہ اد ب کہ جب آدمی ایسی جگہ پر جائے جہاں پر کچھ لوگ سو رہے ہوں اور کچھ بیدار ہوں تو آنے والا سلام کہے اور سلام ہلکی اور اونچی آواز کے درمیان میں ہو(یعنی درمیانی آواز میں اتنا اونچی ہو)کہ وہ بیدار لوگوں کو سنا دے اور دوسروں کو پریشان نہ کرے۔‘‘ (شرح مسلم للنووی:۲/۱۸۴) اس سے یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ سوئے ہوئے ہیں تو ان کے پاس جاگنے والوں کو اس طرح اونچی آواز میں باتیں نہیں کرنی چاہیے کہ سونے والے بیدار ہو جائیں ،اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ نیند ناقض وضو ہے: اس کی دلیل یہ ہے ،سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم سفر پر ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور ان کی راتیں موزے نہ اتاریں الا یہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے،تاہم پاخانہ ،پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں ۔ (سنن الترمذی:۹۶،سنن النسائی: ۱۲۷، اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۱۹۶) اور ’’امام ابن حبان: ۱۰۹‘‘ (الموارد) نے صحیح اور امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔ یہ حدیث اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے کہ نیند ناقض وضو ہے کیونکہ نیند کا ذکر