کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 87
تین آدمیوں والاواقعہ ان میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں رات کو قیام کروں گا سوؤں گا نہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے سختی سے انھیں ڈانٹا۔ (صحیح البخاری:۵۰۶۳) بعض صوفی قسم کے لوگ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں وہ اس کو اپنے گمان میں تو اچھا عمل سمجھتے ہیں حالانکہ سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان کا یہ عمل سرے سے مردود ہے۔ کیونکہ قرآن (المزمل:۲۔۴) اور حدیث (صحیح البخاری: ۱۱۳۱، ۱۱۴۱ وغیرہ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کا کچھ حصہ سونا اور کچھ حصہ عبادت کرنی چاہیے۔ اور یہی امام کائنات محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون زیادہ متقی ہو سکتا ہے۔؟!آپ کی پیروی میں ہی نجات ہے لہذا ہم ہر ہر کام میں اسی کو لازم پکڑیں۔ قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالی کو نمازوں میں سب سے محبوب داؤد علیہ السلام کی نماز ہے وہ رات کا نصف (آدھا)حصہ سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے ۔‘‘ (صحیح البخاری:۱۱۳۱) بعض لوگ نماز تہجد کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے حالانکہ روزانہ تہجد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کوکہا: ’’لا تکن مثل فلان کان یقوم من اللیل فترک قیام اللیل۔‘‘ اے عبداللہ!تو اس شخص کی طرح نہ ہو جو نماز تہجد پڑھا کرتا تھا پھر اس نے چھوڑ دی۔ (صحیح البخاری:۱۱۵۲) ساری رات سوئے رہنے کی مذمت اور نماز تہجد پڑھنے کی فضیلت: بعض لوگ ساری ساری رات سوئے رہتے ہیں نہ ان کو نماز کی فکر ہے اور نہ انھیں دعا کی فکر ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: