کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 85
ارادہ فرمایا تو آپ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ رات کو نہیں سوئے گا اور صبح کو ہمیں بیدار کرے گا۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم) رات کے اول حصے میں سو جانا چاہیے اور آخری حصے میں نماز تہجد کے لیے بیدار ہو جانا چاہیے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتی ہیں: ’’کان ینام أولہ ویقوم آخرہ فیصلي‘‘ آپ رات کے اول حصے میں سو جاتے اور آخری حصے میں بیدار ہو جاتے،اور نماز (تہجد) پڑھتے۔ (صحیح البخاری:۱۱۴۶) نماز تہجد کا اہتمام کرنا بہت بڑا عمل ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أفضل الصلاۃ بعد صلاۃ الفریضۃ صلاۃ اللیل‘‘ فرض نماز کے بعد سب نمازوں سے افضل نماز تہجد ہے۔ (صحیح مسلم:۱۱۶۳) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’پہلے نمازِ تہجد فرض تھی پھربارہ(۱۲) ماہ کے بعد نفل قرار دی گئی۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶) اس وقت دعاء بھی کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے دوں اور اس وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔(صحیح البخاری:۱۱۴۵،صحیح مسلم:۷۵۸) نماز تہجد کے لیے اپنی بیوی کو بھی بیدار کرنا چاہیے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے رحمت کی دعا کی ہے،جو رات کو اٹھا ۔پھر نماز تہجد اداکی اور اپنی بیوی کو جگایاپھر اس نے بھی نماز پڑھی ،اور اگر اس نے انکار کیا تو اس