کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 55
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھاکرتے تھے جدھر وہ منہ کرے اور اسی پر وتر پڑھتے تھے مگر فرض اس پر نہ پڑھتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری:۱۰۰۰،صحیح مسلم:۷۰۰، دارالسلام: ۱۶۱۸) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور وہ سامنے لیٹی رہتیں پھر جب وتر رہ جاتے تو آپ انھیں بیدار کر دیتے وہ وتر پڑھ لیتیں۔‘‘ (صحیح البخاری: ۹۹۷، صحیح مسلم: ۷۴۴، دارالسلام: ۱۷۳۵) ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے ۔(صحیح البخاری:۶۴۱۰،صحیح مسلم:۲۶۷۷) ان احادیث سے نماز وتر کی اہمیت تو ثابت ہوتی ہے لیکن فرضیت نہیں ۔ نماز وتر کا وقت: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو ڈر ہو کہ رات کے آخری حصے میں نہ اٹھ سکے گا تو وہ رات کے اول حصے میں (نماز عشاء کے بعد)پڑھ لے۔اور جس کو امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں اٹھے گا تو وہ وتر رات کے آخری حصے میں پڑھے اس لیے کہ آخری رات کی نماز ایسی ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم: ۷۵۵) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی وصیت کی ۔ (صحیح البخاری: ۱۱۲۴، صحیح مسلم: ۷۲۱) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول رات میں اور درمیان رات میں اور آخر رات میں سب وقت ادا کیے ہیں اور آپ کے وتر کی انتہا سہری تک ہوئی۔ (صحیح مسلم:۷۴۵، دارلسلام: ۱۷۳۷)