کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 49
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری: ۵۶۰) نمازِ عشاء کو مؤخر کر کے پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسندتھا ۔ (صحیح البخاری قبل ح ۵۷۲) منافقین پر نمازِ عشاء اور فجر بہت بھاری ہیں۔ (صحیح البخاری: ۶۵۷ ، صحیح مسلم:۶۵۱) سفر میں دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا: سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خرجنا مع رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في غزوۃ تبوک فکان یصلي الظہر والعصر جمیعًا والمغرب والعشاء جمیعًا۔ ہم غزوۂ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، آپ ظہر و عصر کی نماز اکٹھی ( جمع کر کے ) پڑھتے تھے اور مغرب و عشاء کی نماز اکٹھی پڑھتے تھے۔ ( صحیح مسلم: ۷۰۶) ۴۔ مقیم آدمی بھی بارش ، خوف یا شدید عذر کی بنیاد پر دونوں نمازیں جمع کر سکتا ہے۔(دیکھئے صحیح مسلم: ۷۰۵) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بارش میں دو نمازیں اکٹھی پڑھتے تھے ۔( موطأ امام مالک ص ۱۲۶ وسندہ صحیح ) ۵۔ حج کرتے ہوئے ۹ ذوالحجہ کو مغرب اور عشاء کی نمازیں منیٰ ہی میں ادا کی جائیں۔ (صحیح مسلم: ۱۲۱۸) اور نمازِ عشاء منیٰ میں دو رکعت پڑھی جائے گی۔ (صحیح مسلم: ۶۹۴) علامہ نووی نے اس پر باب قائم کیا ہے کہ’’ منیٰ میں نماز قصر کرنا ‘‘ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے شروع زمانہ میں دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں ۔(ایضاً)