کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 43
ہو گی۔بہر حال چند حالتیں وہ ہیں جن میں طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ ان حالتوں میں نیت کو دخل نہیں ہے ۔مثلاً ۱۔ حالتِ نشہ میں دی گئی طلاق۔(یہ استدلال ہے کیونکہ انسان نشے کی حالت میں پاگل انسان کی طرح ہوتا ہے اور اسے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ۲۔ پاگل کی طلاق۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ:’’حالت نشہ میں دی گئی طلاق اور پاگل آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح البخاری:قبل ح۵۲۶۹تعلیقا بالجزم) ۳۔ شدید غصے میں دی گئی طلاق کیونکہ اس وقت بھی انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ (سنن أبي داؤد:۲۱۹۳،ابن ماجہ:۲۰۴۶ وحسنہ الالبانی) ۴۔ زبر دستی دلوائی گئی طلاق۔سیدنا ابن عباس نے فرمایا:’’حالت نشہ میں موجود انسان اور مجبور شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاری:قبل ح۵۲۶۹تعلیقا بالجزم) ۵۔ سونے کی حالت میں طلاق۔ ۶۔ خواب میں دی گئی طلاق۔حدیث میں آتا ہے کہ:’’۔۔۔ سونے والا مرفوع القلم ہے۔۔۔۔ (سنن أبي داؤد:۴۴۰۳،سنن النسائي: ۳۴۳۲ وصححہ الالباني) لہٰذا سونے کی حالت یا خواب میں اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ۲۔ اگر کوئی اشارے کنائے میں طلا ق دینے کے ہم مثل کلمات استعمال کرے تو اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گانا کہ ظاہری الفاظ کا مثلاً اگر وہ کہے کہ:’’تو اپنے گھر چلی جا، یا کہے کہ تو آج کے بعد آزاد ہے ‘‘ وغیرہ۔اگر تو اس سے اس کااپنی بیوی کو طلاق دینا مقصود ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔اور اگر اس سے طلاق دینا مقصود نہیں تو طلاق واقع نہیں ہو گی۔امام زہری نے کہا کہ:’’اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ تو میری بیوی نہیں ہے تو اس کی نیت معلوم کی جائے گی اگر اس نے اس سے طلاق مراد لی ہے تو واقع ہو جائے گی (ورنہ نہیں)۔‘‘ (صحیح البخاری:قبل ح۵۲۶۹تعلیقا بالجزم)