کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 42
ہے کہ جب آدمی اپنا بستر وغیرہ مسجد میں لا کر خیمہ وغیرہ بناتا ہے تو اس کی نیت تھی تو تب ہی اس نے یہ سارے کام کیے ہیں بس یہی نیت ہے کیونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے اور نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیں لیکن بعض لوگ اپنی زبان سے تلفظوں کی صورت میں مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لیے ’’نویت سنۃ الاعتکاف‘‘ میں نے اعتکا ف کی سنت کی نیت کی ۔کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے جس سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ نیت کر لینے سے اعتکاف واجب نہیں ہوتا: مثلا کوئی شخص اعتکاف کرنے کی نیت سے مسجد میں اپنا خیمہ بنا لے پھر ایسا کوئی عذر پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ اعتکا ف نہ کر سکے تو اس کے اعتکاف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ آتا ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسجد میں خیمہ بنایا گیا تو آپ کی تین بیویوں سیدہ عائشہ ،سیدہ حفصہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہن نے بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے بنا لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو اتو آپ نے ان خیموں کو ختم کر دینے کا حکم دیا پھر آپ نے شوال کے دس دنوں کا اعتکاف کیا۔‘‘ (صحیح البخاری:۲۰۳۳) اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’وفیہ ان الاعتکاف لا یجب بالنیۃ‘‘ اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نیت کر لینے سے اعتکا ف کرنا واجب نہیں ہوتا۔ (فتح الباری:۴-۳۴۹) نیت اور طلاق: ۱۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ کہے خواہ طلاق کی نیت ہو یا محض مذاق مقصود ہو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ حدیث ’’ثلاث جدھن جد و ھذلھن جد‘‘ اگر سہواً زبان سے طلاق کا لفظ نکل جائے اور طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہ