کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 41
روزہ کی نیت کے مروجہ الفاظ کی حقیقت: روزہ کی نیت کے مشہور مروجہ الفاظ: ’’وبصوم غدنویت من شھر رمضان‘‘ کسی نے خود گھڑے ہیں جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ شیخ منیر احمد قمر حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود کہے اور نہ تعلیم فرمائے ۔یہ نہ خلفاء وصحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں اور نہ ہی تابعین و آئمہ رحمہم اللہ میں سے کسی سے ثابت ہیں ۔کتب حدیث وفقہ کا سارا ذخیرہ چھان ماریں یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اور جن بعض عام سی کتابوں میں ملیں گے۔ان میں بھی قطعا بے سند مذکور ہوں گے ۔معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے جوڑ دئیے ہیں۔ویسے اگر تھوڑے سے غورو فکر سے کام لیا جائے تو خود ان الفاظ میں ہی ان کے جعلی و من گھڑت ہونے کی دلیل موجود ہے۔مثلا طلوع ِ صبح صادق کے وقت اذانِ فجر سے تھوڑا پہلے سحری کھانے سے قبل یہ کہتا ہے ہے:’’میں نے کل کے روزے کی نیت کی۔‘‘ تو اس کا یہ قول واقع اور حقیقت کے خلاف ہے ،کیونکہ فجر تو ہو چکی اور یہ روزہ جس کی وہ سحری کھانے لگا ہے کل کا نہیں بلکہ آج کا ہے۔ یہاں ’’وبصوم الیوم‘‘ جیسے الفاظ ہونے چاہییں تھے کہ میں نے آج کے روزے کی نیت کی۔کیونکہ کتبِ لغت میں غَدِِ کا معنی لکھا ہے:آئندہ کل یا وہ دن جس کا انتظار ہے ، یعنی قیامت کا دن۔‘‘ (نماز وروزہ کی نیت:ص۳۷۔۳۸) معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شرعا ولغۃ دونوں اعتبار سے ثابت نہیں ہیں ۔جب نیت کا تعلق ہی دل سے ہے تو پھر ان موضوع (من گھڑت)الفاظ سے نیت کرنا چہ معنی دارد؟۔ اعتکاف کی نیت: یہ بھی عبادت ہے اس کے لیے بھی نیت ضروری ہے ۔اس کی نیت کی صورت یہ