کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 39
’’إن موافقۃ الإمام في نیۃ الفرض أوالنفل لیست بواجبۃ۔‘‘ بے شک فرض یا نفل (نماز)کی نیت میں امام کی موافقت کرنا واجب نہیں(یعنی امام اور مقتدی کی نیت کا اختلاف جائز ہے)۔ (مجموع الفتاوی: ۲-۲۰۹، التعلیقات السلفیۃ) نیت اور حج: شیخ عمرو بن عبدالمنعم حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج اور عمرہ کی لبیک کہنا ہی زبانی نیت کا جواز ہے،حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔نیت تو صرف ارادے کو کہتے ہیں ۔جیسا کہ گزر چکا ہے،بلند آواز سے جو لبیک کہی جاتی ہے وہ نماز تکبیر تحریمہ کے قائم مقام ہے اور کوئی عقل مند آدمی تکبیر کو نماز کی نیت نہیں کہتا اور وضو پر بسم اللہ کو وضو کی نیت نہیں سمجھتاہے۔‘‘ امام ابن رجب نے کہا ہے کہ: ’’ان مسائل میں ہمیں نہ سلف صالحین سے کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ کسی امام سے۔‘‘ پھر مزید کہا ہے کہ: ’’اور ابن عمر سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو احرام باندھتے وقت یہ کہتے سنا کہ اے اللہ !میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتاہوں تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تو لوگوں کو بتا رہا ہے؟ کیا تیرے دل میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالی باخبر نہیں ؟۔‘‘ (جامع العلوم والحکم:ص۴۰) یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ حج اور عمرہ میں لفظی نیت جائز نہیں ہے ،جو اسے ضروری سمجھتے ہیں اور خواہ مخواہ اس پر زور دیتے ہیں تو انہوں میں ایسی بدعت ایجاد کی ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے اور نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔‘‘ (عبادات میں بدعات:ص۲۱۴)