کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 38
نورپوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اور نیت نماز میں تبدیل بھی کی جا سکتی ہے اور عمل ختم ہونے سے پہلے کسی وقت بھی نیت کی جا سکتی ہے ’’ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ‘‘ آیا ہے ۔ہاں جن اعمال میں نیت کی ابتداء وآغازعمل میں ہونے کی تصریح موجود ہے ان میں نیت ابتداء و آغاز عمل میں ہی ہو گی۔‘‘ (احکام و مسائل:۲-۱۸۷)
امام اور مقتدی کی نیت میں اختلاف جائز ہے:
مثلاً امام کی نماز نفلی ہو اور مقتدی کی فرضی ہو ،اس میں دونوں کی نیتیں مختلف ہیں ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ عشاء پڑھتے پھر اپنی قوم(اہل محلہ)کے پاس آتے،پھر انھیں یہی عشاء کی نماز پڑھاتے۔ (صحیح البخاري:۷۰۰ ، صحیح مسلم:۴۶۵)
یہ واضح نص ہے کہ نیتوں کا مختلف ہونے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔کیونکہ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ثابت ہے کہ:
’’ سیدنا معاذ کی دوسری نماز نفلی ہوتی تھی اور مقتدیوں کی فرضی ہوتی تھی۔‘‘
(مصنف عبدالرزاق: ۲-۸، سنن الدارقطني: ۱-۲۷۴ وقال ابن حجر: ’’وھو حدیث صحیح رجالہ رجال الصحیح۔‘‘ فتح الباري:۲-۲۴۹)
اسی مذکورہ حدیث پرامام نسائی نے باب قائم کیا ہے:اختلا ف نیۃ الإمام والماموم۔
’’ امام اور مقتدی کی نیت کا مختلف ہونا۔‘‘ (سنن النسائي:۱-۹۶)
گویا کہ امام نسائی بھی اس سے یہی استدلال کر رہے ہیں کہ امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: