کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 37
امام شافعی [1] کے،از ناقل)وغیرہ کے اجماع کی مخالفت کی ۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۵۔۱۵۳) (الفتاوی الکبری: ۲/۲۱۳)
علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اس (تکبیر) سے پہلے آپ کچھ بھی نہ کہتے اور نہ زبانی کرتے۔ نہ یہ فرماتے کہ’’میں ایسے چار رکعتیں ،قبلہ رخ ہو کر پڑھتا ہوں ،امام یا مقتدی کی حیثیت سے ،اور نہ یہ فرماتے کہ اداء یا قضاء ہے ،یا (میری یہ نماز )فرض میں ہے ۔یہ سب بدعات ہیں ۔آپ سے ان کا ثبوت نہ صحیح سند سے ہے اور نہ ضعیف سند سے ۔ان میں سے ایک لفظ با سند (متصل)یا مرسل(یعنی منقطع)مروی نہیں ہے اور نہ کسی صحابی یہ( عمل )منقول ہے،یا تابعین کرام اور آئمہ اربعہ میں بھی کسی نے اس (مستحب و)مستحسن قرار نہیں دیا۔‘‘ (زاد المعاد:۱-۲۰۱)
نماز میں نیت تبدیل کرنا درست ہے:
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
’’۔۔۔میں رات کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہوا آپ نے میرا سر اپنی پیٹھ کے پیچھے سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کر دیا ۔۔۔‘‘
(صحیح البخاری:۶۹۹)
امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے:
اذا لم ینو الامام ان یؤم ثم جاء قوم فامھم۔
’’جب امام نے امات کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آجائے تو ان کی امامت کرا دے ۔‘‘
اس میں واضح دلیل ہے کہ نیت نماز میں تبدیل کرنادرست ہے۔حافظ عبدالمنان
[1] المعجم لإبن المقرئی: ص ۱۲۱ ح ۳۳۶ وسندہ صحیح۔ الحسینوی.