کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 34
لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست ،بیمار ذہن اور پاگل شخص ہی ہوتاہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ میں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کی نیت کرتا ہوں؟۔
یا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلانہ بنت فلانہ سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کی نیت کرتا ہوں؟۔
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اور مجنوں ہی ہو سکتا ہے۔
تما م عقل مند انسانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے زبان نہیں ،کسی چیز کے بارے میں آپ کے ارادہ کو نیت کہتے ہیں،جس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اور نہ ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو واضح کریں۔۔۔۔یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے۔ عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی صحیح شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی۔
زبان سے نیت کرنے والاشخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتاتو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کر دے اور اگر وہ یہ رٹے رٹائے الفاظ بطورِ عبادت کہتا ہے تواس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل نہیں۔‘‘ (عبادات میں بدعات:ص۴۶۔۴۸)
نیت اور غسل:
غسل بھی ایک عمل ہے اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ’’ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر