کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 30
’’ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اور اس کی رضا تلاش کرنے کے لیے کسی کام کی طرف توجہ کا مرکوز ہونا۔‘‘
اور معلوم ہے کہ ارادہ دل کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ زبان کے ساتھ۔ ‘‘(احکام و مسائل:۲-۱۸۰)
لطیفہ:
ہم بعض لوگوں سے جب آمین بالجہر کے متعلق بات کرتے ہیں کہ یہ سنت اونچی آواز سے کہنا ہے تو وہ کہتے ہیں کیا اللہ تعالی دل کی بات کو نہیں جانتا،یعنی آہستہ نہیں سنتا! ہم کہتے ہیں آمین بالجہر کے مسئلہ میں تمہارا یہ جواب ہے تو تم نیت اونچی آواز سے کرتے ہو یہاں کیا اللہ تعالی تمہارے دل کی بات کو نہیں جانتا حالانکہ زبان سے نیت کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔
کئی علماء نے زبان سے نیت کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔
مثلاً:
۱۔ ابن تیمیہ (الفتاو ی الکبری:۱-۲۱۴)
۲۔ ابن القیم (زاد المعاد:۱-۶۹)
۳۔ ابن عابدین حنفی (رد المختار:۱-۲۷۹)
۴۔ ملا علی قاری حنفی (مرقاۃ المفاتیح:۱-۴۱)
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے:
امام بخاری فرماتے ہیں:
’’باب ماجاء: إن الاعمال بالنیۃ والحسبۃ،ولکل امرء ما نویٰ ،فدخل فیہ الإیمان، والوضوء، والصلاۃ، والزکاۃ، والحج، والصوم، والاحکام، وقال اللّٰه تعالی: ’’قل کل یعمل علی شاکلتہ) (الاسراء:۸۴) علی نیتہ، ونفقۃ الرجل علی أہلہ