کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 223
الحال اولاد کی طرف سے ادا کرنے کی قدرت ہو۔‘‘ ( کتاب الاجماع: ۱۰۷) نیز فرماتے ہیں: ’’اجماع ہے کہ آدمی پر اپنے مملوکہ موجود غلام کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ ‘‘ ( کتاب الاجماع: ۱۰۹) ٭(۱): ذمی پر اپنے مسلمان غلام کا صدقۂ فطر واجب نہیں، ابن المنذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ( کتاب الاجماع: ۱۰۹) ٭(۲): عورت نکاح سے پہلے اپنا صدقہ فطر خود ادا کرے گی۔ امام ابن المنذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ( کتاب الاجماع: ۱۱۰) ٭(۳): امام ابن المنذر فرماتے ہیں: ’’ اجماع ہے کہ جنین ( بطن مادر میں موجود بچے ) پر صدقۂ فطر نہیں ۔ ‘‘ ( کتاب الاجماع: ۱۱۱) صدقۂ فطر کی مقدار: مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ صدقۂ فطر ایک صاع گھر کے ہر فرد کی طرف سے ادا کرنا چاہئے۔ امام ابن المنذر فرماتے ہیں:’’ اجماع ہے کہ ( صدقۂ فطر میں ) جَو اور کھجور ایک صاع سے کم جائز نہیں۔‘‘ ( کتاب الاجماع: ۱۱۲) ایک صاع کا وزن تقریباً اڑھائی کلو بنتا ہے۔ صدقۂ فطر ادا کرنے کا وقت: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا چاہئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اسے نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ ( صحیح بخاری: ۱۵۰۳) عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔ ( صحیح بخاری: ۱۵۱۱)