کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 222
بکثرت تمھیں دیکھا ہے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائیں، اجازت ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر عرض کیا: یا رسول اللہ ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیاتھا ، اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کر نا چاہتی تھی۔ مگر (میرے شوہر ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ خیال ہے کہ وہ اور ان کی اولاد اس صدقہ کے ان (مساکین ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہا ہے۔تیرا شوہر اور اس کی اولاد تیرے صدقے کی زیادہ مستحق ہے ۔‘‘ ( صحیح بخاری: ۱۴۶۲) بیوی اس مال سے خاوند کو صدقہ یا زکوٰۃ دے گی جو اس کی اپنی جائیداد اور ملکیت میں ہے۔ صدقہ فطر کا بیان: ۱: صدقہ فطر کن لوگوں پر فرض ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے غلام ، آزاد ، مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے سب پر صدقۂ فطر فرض کیا ہے ایک صاع ( تقریباً اڑھائی کلو ) کھجوروں سے اور ایک صاع جو سے اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز (عید) کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔‘‘ ( صحیح بخاری: ۱۵۰۳، صحیح مسلم: ۹۸۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر صدقۂ فطر فرض ہے اور امام ابن المنذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ( کتاب الاجماع: ۱۰۶) ۲: مذکورہ افراد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا فرض ہے ۔ امام ابن المنذر فرماتے ہیں: ’’اجماع ہے کہ صدقۂ فطر آدمی پر واجب ہے اگر اسے اپنی طرف سے اور اپنی مفلوک