کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 218
دونوں کو ایک جگہ جمع کر لے ،اگر کسی سے قرض لینا ہے اور اس سے ملنے کی امید بھی ہے، اسے بھی موجودہ رقم میں جمع کر لے پھر جتنا کسی کو قرض دینا ہے وہ الگ کر لے، اب جو رقم باقی بچی ہے ،اس میں سے اڑھائی فی صد کے حساب سے( چالیسواں) حصہ زکوٰۃ ادا کرے۔ [ میمون بن مہران تابعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تمہارا زکوٰۃ کا وقت آئے تو اپنے سارے مال کا حساب کرو، جس قرضے کے ملنے کی امید ہے، اسے بھی شمار کرو اور پھر تم پر جو قرض ہے اسے منہا کر کے نکال دو پھر باقی کی زکوٰۃ ادا کرو۔ کتاب الاموال لابی عبید: ۱۲۱۹ ، وسندہ حسن] ہر وہ چیز جو تجارت کے لئے نہیں بلکہ صرف ذاتی استعمال کے لئے ہے مثلاً گھر یا دکان کی عمارت، مشینری ، فرنیچر وغیرہ اور جن کی خریدو فروخت نہیں کی جاتی، ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہی چیزیں تجارت کے لئے ہوں تو ان پر زکوٰۃ ہے نیز آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہر قسم کے پھل اور ہر جنس پر زکوٰۃ واجب ہے: ہرپھل اور کھیتی جو زمین سے پیدا ہوتی ہے اس سے زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔‘‘ ( الانعام: ۱۴۱ ) زرعی پیداوار میں زکوٰۃ ادا کرنے کو عشر کہا جاتا ہے۔ عشر ادا کرنے کا طریقہ: جو زمین نہروں اور آسمانی بارش کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہے اس میں سے دسواں حصہ نکالا جائے گا اور جس زمین کو جانوروں (وغیرہ )کے ذریعے سے سیراب کیا جاتا ہے اس میں سے بیسواں حصہ ہے۔ ( صحیح مسلم: ۹۸۱) ایک حدیث میں ہے کہ: ’’ وہ زمین جو آسمان یا چشمے سے سیراب ہوتی ہے یا وہ خود نمی کی وجہ سے