کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 211
بوقت ضرورت ( یا مجبوری ) ہی کیا جاسکتا ہے ورنہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بیٹھ کر ہی کھایا پیا جائے ، یہی افضل عمل ہے۔ آج کل دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اس میں سہولت ہے کہ بیک وقت سارے لوگ فارغ ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف اس کی قباحتوں کو ، جو اس ایک سہولت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، نہیں دیکھتے۔ اس میں ایک تومغرب کی نقالی ہے جو حرام ہے ، دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے ہو کر کھانے پینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تیسرے اس میں جو بھگدڑ مچتی ہے وہ کسی باوقار اور شریف قوم کے شایان شان نہیں ۔ چوتھے اس میں ڈھور ڈنگروں کے ساتھ مشابہت ہے، گویا اشرف المخلوقات انسانوں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح چارہ ڈال کر کھول دیا جاتا ہے، پھر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے ، اس پر جانور بھی شاید شرما جاتے ہوں۔ پانچویں، انسان نما جانوروں کو باڑے یا اصطبل میں جمع کرنے کے لئے وقت پر آنے والوں کو نہایت اذیت ناک انتظار کی زحمت میں مبتلا رکھا جاتا ہے جس سے ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور انتظار کی شدید مشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ششم اس انتظارکی گھڑیوں میں یا توفلمی ریکارڈنگ سننے پر انسان مجبور ہوتا ہے یا بھانڈ میراثیوں کی جگتیں یا میوزک کی دھنیں سننے پر ۔ ہفتم یہ کہ اس طرح کھانا ضائع بھی بہت ہوتا ہے ، بہرحال دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج یکسر غلط ہے اور مذکورہ سارے کام بھی شیطانی ہیں۔ اس لئے دعوتوں کا یہ انداز بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔ اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘ ( ریاض الصالحین ۱/ ۶۲۷، اردو) پانی پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنی چاہئے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہوتا ہے جو کھانا کھانے یا مشروب (پانی وغیرہ) پینے کے بعد اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۷۳۴) سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیا جائے۔ ( صحیح البخاری: ۵۶۳۳، صحیح مسلم: ۲۰۶۷)