کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 203
کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے:
ایسے پانی ( جس میں پیشاب کیا گیا ہو)سے نہ وضو کرنا صحیح ہے اور نہ اسے پینا ہی صحیح ہے۔ ( صحیح ابن خزیمہ: ۹۴)
کھڑے پانی میں جنبی آدمی کا نہانا منع ہے:
البتہ پانی الگ لے کر نہانا صحیح ہے۔
اگر آدمی سوکر اٹھے تو ہاتھوں کو پانی ( کے برتن ) میں داخل کرنے سے پہلے الگ پانی لے کر دھو لینا چاہئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ ہاتھوں نے رات کہاں گزاری ہے۔
( صحیح البخاری: ۱۶۲۰، صحیح مسلم: ۲۷۸)
پانی میں خود بخود مچھلی مر جائے تو وہ حلال ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ دریا ئی اور سمندری پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘ ( موطأ امام مالک: ۱۲، ابو داود: ۸۳وسندہ صحیح)
ہمارے استاد حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ پانی میں خود بخود مرنے والی مچھلی حلال ہے یہی مسلک سیدنا ابو بکر الصدیق ( رضی اللہ عنہ ) اور جمہور علمائے اسلام کا ہے۔‘‘
(دیکھئے صحیح البخاری ’’ کتاب الذبائح والصیدباب قول اللّٰه تعالٰی: أحل لکم صید البحر ‘‘ (قبل ح ۵۴۹۳) وفتح الباری ج۹ص ۶۱۸ وغیرہما)
اس مسلک کے خلاف کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔
( تسہیل الوصول الیٰ تخریج و تعلیق صلوٰۃ الرسول ص۴۲ حاشیہ: ۳، نیز دیکھئے: الصحیحۃ ح۴۸۰)
وضو کے پانی والے برتن کو ڈھانپنا چاہئے:
اور اس کے منہ کو باندھنا چاہئے۔ ( مسند احمد ۲/۳۶۷ وسندہ صحیح)