کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 201
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جببیت الخلا (استنجا کرنے کے لئے) گئے، ایک برتن میں پانی لایا گیا، آپ نے استنجا کیا پھر ایک اور برتن میں پانی لایا گیا آپ نے (اس سے) وضو کیا۔ ( أبو داود: ۴۵وسندہ حسن ) معلوم ہو اکہ استنجا کے لئے علیحدہ اور وضو کے لئے علیحدہ برتن استعمال کرنا چاہئے۔ چند اہم فوائد قابلِ ذکر ہیں: ۱۔ مٹی کے ڈھیلے سے بھی استنجا کرنا صحیح ہے۔ ( صحیح البخاری: ۱۵۵) ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ( ڈھیلوں ) سے استنجا کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم:۲۶۲، ابو داود: ۷وسندہ صحیح) ( اس سے استدلال کرتے ہوئے ) پانی بھی تین مرتبہ استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی پاکی حاصل کرنے میں ڈھیلے کے قائم مقام ہے یا پھر جس طرح ڈھیلے طاق استعمال کئے جاتے ہیں تو اسی طرح پانی بھی طاق مرتبہ استعمال کرنا چاہئے۔ واللّٰه اعلم ۳۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ: ’’ اگرچہ ڈھیلوں سے استنجا کرنا جائز ہے تاہم (بعض علماء) سفیان ثوری، ابن المبارک ، شافعی ،احمد اور اسحاق ( بن راہویہ ) کے نزدیک پانی سے استنجا کرنا مستحب اور افضل ہے۔‘‘ ( ترمذی ۱/۱۱ح ۱۹ درسی ط: ایچ ایم سعید کراچی) نیز فرماتے ہیں کہ: ’’ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ صرف ڈھیلوں سے استنجا کرنا جائز ہے اگرچہ ان کے بعد پانی استعمال نہ کریں بشرطیکہ پیشاب اور پاخانے کا اثر خوب زائل ہو جائے اور یہی قول سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔‘‘ ( ترمذی ۱/۱۰ح ۱۵) ۴۔ استنجا کرنے کے لئے پانی ساتھ لے جانا چاہئے۔ ( صحیح البخاری: ۱۵۱)