کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 198
وہ پانی جس میں پاک چیز ملا دی گئی ہو: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو نہلا رہی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ ’’ اس کو تین، پانچ یا سات بار یا اس سے (بھی) زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری بار (پانی میں ) کچھ کافور بھی ملا لو۔‘‘( صحیح البخاری: ۱۲۵۸، ۱۲۵۹، صحیح مسلم: ۹۳۹) مشرکوں کے برتنوں میں موجود پانی سے وضو اور غسل کرنا صحیح ہے: (صحیح بخاری: ۳۴۴ وصحیح مسلم: ۶۸۲،صحیح ابن خزیمہ: ۱۱۳،وسندہ صحیح) لہٰذا ان کے برتنوں میں پانی پینا اور انھیں استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ واضح رہے کہ یہ صرف عذر کی صورت میں ایک رخصت ہے وگرنہ حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ یہودونصاریٰ اور مشرکین کے برتنوں کو استعمال نہ کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اہلِ کتاب کے برتنوں کو استعمال کرنے کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: فلا تأکلوا فیھا وإن لم تجدوا فاغسلوھا ثم کلوا فیھا۔ ’’ تم ان ( کے برتنوں ) میں نہ کھاؤ، اور اگر تم (ان برتنوں کے علاوہ کوئی اور برتن) نہ پاؤ تو اسے دھو کر پھر اس میں کھا سکتے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری: ۵۴۸۸، صحیح مسلم: ۱۹۳۰) حلال جانور[1] کے چمڑے میں جب پانی ہو اور وہ چمڑا رنگ کیا گیا ہو تو اس میں موجود پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے چاہے اسے ذبح کیا گیا ہو یا بغیر ذبح کے مردار ہوجائے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشکیزے ( کے پانی) سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا
[1] ہم نے’’جانوروں کے احکام‘‘پر مفصل کتاب لکھ رکھی ہے، جو ’’شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ جلد دوم میں شائع ہو گی۔ان شاء اللہ۔ الحسینوی.