کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 181
’’یقینا میری امت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا (اور)وہ وضو کے آثار کی وجہ سے سفید پیشانی اور سفید اعضاء والی ہو گی۔‘‘ (صحیح البخاری: ۱۳۶ واللفظ لہ ،صحیح مسلم:۲۴۶) سو کر اٹھتے وقت چہرے کو دھونا: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ أن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قام من اللیل فقضٰی حاجتہ وغسل وجھہ ویدیہ ثم نام ۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (نیند سے) بیدار ہوئے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قضائے حاجت کی پھر چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھویا پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سو گئے۔‘‘ (صحیح مسلم:۳۰۴ دارالسلام:۶۹۸ ) تیمم میں چہرے کا مسح کرنا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ ﴾ ’’ ہاں اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت سے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو پھر تمھیں پانی نہ مل رہا ہو تو پاک مٹی سے کام لو۔ پھر اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘ (المآئدۃ: ۶) چہرے پر مسح کا ذکر درج ذیل احادیث میں ہے: سیدنا ابو جہیم بن الحارث بن الصمۃ الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث۔( صحیح بخاری: ۳۳۷) سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث۔ ( صحیح بخاری: ۳۳۸) ٭: پہلے ہاتھوں کا پھر چہرے کا مسح کرنا چاہئے۔ ( صحیح البخاری: ۳۴۷)