کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 177
وقت اپنا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر رکھا تھا۔ ( مناقب احمد ص ۴۰۶ وسندہ صحیح بحوالہ ماہنامہ الحدیث: ۲۶ص۱۸)
حافظ ابن حزم فرماتے ہیں کہ(میت کو ) قبلہ رخ کرنا اچھا ہے اگر نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ:
﴿ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ﴾
اور کوئی نص(صحیح حدیث )میت کو قبلہ رخ کرنے کے متعلق نہیں آئی۔ امام شعبی نے کہا کہ کرو یا نہ کرو آپ کی مرضی ہے۔ ( المحلیٰ ۵/۱۷۳۰،۱۷۴، مسئلہ: ۶۱۶)
جن موقعوں پر قبلہ رخ ہونا منع ہے:
قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنا منع ہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أتٰی أحدکم الغائط فلا یستقبل القبلۃ ۔
’’جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے آئے تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۴۴)
قبلہ رُخ پیشاب کی ممانعت کے لئے دیکھئے: صحیح مسلم (۵۹/۲۶۴)