کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 174
اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ﴿ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ سے یہ کعبہ مراد لیا ہے کیونکہ کعبہ مسجد حرام میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے معلوم ہو اکہ قبلہ کعبہ ہی ہے نہ کہ تمام مسجد اور مسجد کا اطلاق ہر اس جگہ پر ہوتا ہے جس پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ۱/۲۲۴ قبل ح ۴۳۲) اس باب کے تحت امام صاحب نے کافی دلائل نقل کئے ہیں، تفصیل کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔ فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر قبلہ رخ ہو کر پڑھنا فرض ہے۔سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفلی نماز) پڑھتے، اس کا رخ مشرق ( غیر قبلہ ) کی طرف ہوتا جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اترتے اور قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے۔ (صحیح بخاری: ۱۰۹۹) ٭: اگر غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لی جائے تو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری نے اس کی طرف باب باندھ کر اشارہ کیا ہے: ’’ باب ماجاء في القبلۃ، ومن لم یرالإعادۃ علٰی من سھا ، فصلّی إلٰی غیر القبلۃ‘‘ باب ان احادیث کے بارے میں جو قبلہ کے متعلق وارد ہوئی ہیں اور اس شخص کے بارے میں جو بھول کر اگر غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لے تو اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( صحیح بخاری قبل ح۴۰۲) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ: ’’ اکثر اہل علم ( محدثین ) کا یہی موقف ہے کہ جب بادل یا کوئی اور عارضہ ہو اور آدمی نے نماز غیر قبلہ کی طرف پڑھ لی ہو پھر اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے تو نماز غیر قبلہ کی طرف پڑھی ہے اس کی نماز ہو گئی ہے (دہرانے کی ضرورت نہیں) سفیان ثوری ، ابن